تصویر ِکائنات میں رنگ
جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی
خواتین کے عالمی دن پرایک دلخراش خبرنے ماحول کونہ صرف سوگوارکرڈالا بلکہ زمانہ جاہلیت کی روایت تازہ ہوگئی جس بیٹی کو نبی ٔ رحمت نے عزت بخشی اسی کو ایک سفاک اور درندہ صفت باپ نے اپنی نومولود بیٹی ایک ننھی پری کو گولیوںسے بھون ڈالا اسی حوالہ سے سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی ایک پوسٹ نے رلاکررکھ دیا اس نے لکھا مجھے نہ مارو نہ باباسات دن کی نازک معصوم اور پستول کی پانچ گولیاں۔۔
آج لکھنے کو نہ تو ہاتھ تیار ہیں نہ دل کی دھڑکن ساتھ دے رہی ہے۔شاید ایک ماں کا، پورے میانوالی کا سارے پاکستان کا کرب میں لفظوں میں ڈھال سکوں۔سات دن قبل ایک رحمت نے ایک ظالم باپ کے گھر آنکھ کھولی۔۔آپریشن تھیٹر سے نرس معصوم بچی لے کر باپ کو مبارک دیتے ہوئے اسکے ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔
باپ نہیں درندے نے بنا دیکھے بیڈ پہ پھینک دی۔۔۔ مجھے بیٹی نہیں بیٹا چاہیے۔۔زخموں سے رِستے خون سے کرلاتی ہوئی ماں نے کہا، بیٹی تو روز محشر آپکو جنت میں ساتھ لے کر جائوں گی۔ظالم باپ: مجھے نہیں چاہیے۔ماں: اس میں میرا کیا قصور؟ میں نے اسے نو ماں پیٹ میں رکھا۔
مجھے بخارہوا۔ دواء نہیں لی کہ بچے پہ اثر نا ہو۔جو کھانے مجھے اچھے لگتے تھے چھوڑ دیئے تھی کہ بچے کے کی صحت پربرا اثر نہ پڑے ۔
اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے احتیاط کی کہ بچے پہ اثر نہ ہو۔درد سے کرلاتی رہتی تھی پر دواء نہیں کھاتی تھی کہ بچے پہ اثر نہ ہو جائے۔۔بھلا مجھے بتلاؤ تو سہی میرا قصور کہاں ہے؟؟باپ چند منٹوں کی پیدا ہوئی بچی کو بیڈ پہ پھینک کے روم سے چلا جاتا ہے۔فرشتے روتے نہیں کْرلاتے ہونگے جب ظالم باپ نے موقع پاتے ہوئے
پانچ گولیاں ایک معصوم کو مار دیں۔پہلی گولی پہ بیٹی نے کہا ہو گا۔۔۔بابا نا مارو۔۔۔ جب آپ دفتر سے تھکے آؤ گے میں آپکے شوز اتارا کروں گی۔۔ میں آپ کے کپڑے استری کیا کروں گے۔میں آپ کے انتظار میں پانی کا گلاس لئے روزانہ دروازے پہ آپکا انتظار کیا کروں گی۔دوسری گولی پہ اٹکتی سانسوں کے ساتھ کہا ہو گا۔۔بابا نا مارو مجھے۔۔میری ماں مجھ سے پہلے مر جائے گی۔
بابا نا مارو مجھے۔۔
میرے لئے سلے چھوٹے چھوٹے کپڑے میری ماں کو پاگل کر دیں گے۔بابا نہ مارو مجھے۔۔علامہ اقبالؒ کو خبرہوتی تو شاید وہ نہ کہتےوجودِ زن سے ہے تصویر ِکائنات میں رنگ یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات میں فسادکا ایک سبب ۔ایک بنیاد یقینا عورت کا وجودبھی ہے تاریخ میں اس صنف ِ نازک نے شجاعت و بہادری کی نئی تاریخ بھی رقم کی ۔ دلوں اور ملکوںپرحکمرانی بھی کی اوربڑے بڑوںکو تگنی کا ناچ بھی نچادیا اس کائنات کا پہلا قتل اور دنیاکی سب سے بڑی جنگ ’’اوٹرائے‘‘ بھی عورت کی وجہ سے ہوئی
دنیا کی ہر زبان اور ملک میں شاعروں ،افسانہ نگاروں اور گیتوںکا موضوع گیسو،رخ،رخسارہیں عورت کی خاطرکئی افراد سلطنتوںسے دستبردارہوگئے اس کے باوجودعورتوںکی اکثریت مظلوم ہے، ان کے ساتھ سماجی،جنسی،سیاسی، معاشرتی استحصال کی کہانیاںہرروز منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں جس سے تصویر ِکائنات کے رنگ پھیکے پھیکے پڑ جاتے ہیں زمانہ قدیم سے شاید آج تلک عورت کو دل بہلانے کی چیز سمجھا جاتاہے دنیا جہان کی اشتہاری مہم،فلیکس،اخباری ایڈوٹائزمنٹ الغرض کہ
ہرجگہ عورت کو استعمال کیا جاتاہے ظلم تو یہ ہے کہ جو چیزیں مردوںکیلئے مخصوص ہیں ان میں بھی بلادریع عورت کو دکھانا انٹرکشن سمجھا جاتاہے کچھ عرصہ قبل بلیڈکا ٹی وی میں اشتہار دیکھا مردشیو کرکے فارغ ہوتاہے ایک عورت نہ جانے کہاں سے نمودارہوتی ہے مرد کے قریب جاکراس کی گالوںپر ہاتھ پھیرکرکہتی ہے وائو !کیا شیوہے؟۔یعنی مصنوعات کو پرکشش بنانے کے چکر میںعورت کو ایک جنس بناکررکھ دیا گیا ہے
۔ہم جس معاشرے میںجی رہے ہیںاسے خالصتاً مردکا معاشرہ کہا جاتاہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ بازار میں فروخت ہونے والی90%پراڈکٹ کا براہ ِ راست تعلق عورت سے ہے لیکن پھربھی عورتوںکی اکثریت مظلوم ہے۔ بہت زیادہ روشن خیالی،آزاد ماحول اور تعلیم کے بڑھتے پھلتے پھولتے اثرات کے باوجود ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوںکی آج بھی کمی نہیں جو اب بھی عورت کو پائوںکی جوتی سے برابر اہمیت دینے کو تیار نہیں حالانکہ عورت۔ ماں ہوتو جنت،بیوی کے روپ میں راحت،بہن کی صورت میں غیرت اور بیٹی کی شکل میں رحمت ہوتی ہے۔کہیں جائیداد میں بٹوارے کے خدشہ کے پیش ٍ
نظر اس کا قرآن سے نکاح کردیا جاتاہے۔کبھی پسندکی شادی کی پاداش میں ’’ کاری ‘‘قراردے کر سنگسارکرنے کا رواج ہے ۔کبھی علاج کے بہانے پاگل خانہ بھیج دیا جاتاہے۔کبھی کردارپرشک کے الزام میں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا دراصل عورت سے جان چھڑانے کا سب سے تیز بہدف نسخہ یہی ہے کہ اس کے کردارکو مشکوک بنادیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل لاہورکے ایک شکی مزاج خاوندنے ایک عجیب و غریب طریقہ دریافت کرڈالا اس نے سب وہمی لوگوںکو مات دیدی بیوی کی جاسوسی کے لئے شوہر کا انوکھا
انداز۔جو کبھی دیکھا نہ سنا اس نے بیوی کے پیٹ میں’’ ٹریکر‘‘ فٹ کروادیا ۔کیا زمانہ آگیاہے خاتون کے پیٹ میں ٹریکر۔گویا وہ انسان نہ ہوئی کوئی موٹر کار ہوگئی۔ زمانہ ٔ قدیم میں تو سر ِ عام عورتوںکی منڈیاں لگا کرتی تھیں سناہے آج بھی بیشترممالک میں کسی نہ کسی شکل میں یہ کاروبار جاری ہے۔ جسم فروشی کے چرچے تو شہر شہر گائوں گائوں میں ہیں دولت کی ہوس نے تو سب کچھ تباو کرکے رکھ دیا ہے
آج جب دنیا نے بے حدو حساب ترقی کی ہے لیکن عورت کی حالت اور اس سے سلوک زمانہ ٔ قدیم جیسا ہی روا وکھا جاتاہے ۔ ہم اپنے ارد گرد نظردوڑائیں تواحساس ہوگا جہاں عورت کو عزت و تکریم دینے والے بھی موجود ہیں وہاں بہت سے احساس سے عاری دیوث بھی موجود ہیں جو انتہائی گھنائونے کاموںمیں ملوث ہیں اور ان کے نزدیک صرف روپیہ پیسہ ہی اہم ہے انسانی جذبات،اخلاقی اقدار اورمذہبی حد کی کوئی اہمیت نہیں ۔ بیوی کوبدکاری پر مجبور کرنا کس قدر گھنائونا کام ہے اوپر سے اس کے پیٹ میں’
’ ٹریکر‘‘ فٹ کروادینا کس قدرکمینگی ہے ایسے افرادکے ساتھ ساتھ اس ڈاکٹرکو بھی عبرت کا نشان بنا دیا جائے جس نے چند روپوںکی خاطرمسیحائی بیچ ڈالی۔ہمارا معاشرہ کس طرف جارہاہے دولت کی اندھی ہوس نے کتنے مسائل پیدا کردئیے ہیں ہمیں خود بھی احساس نہیں اس کی بنیادپر گھر ٹوٹ رہے ہیں کہیں عورت کو جنس بنادیاگیاہے تو کہیں اسے جہیز نہ ملنے کی پاداش میں جبرکی سولی پر چڑھادیاجاتاہے کہیں
اس کے اپنے جائیداد میں حصہ نہ دینے کے لئے اس کی شادی نہیں کرتے وہ ساری زندگی دوسروںکی مرہون ِ منت بنی رہتی ہے اس دنیا میں کروڑوں خواتین کی غربت کے باعث شادی نہیں ہوتی ،کئی علاقوںمیں اسے کاری بناکرموت کے گھات اتاردیا جاتاہے پاکستان، بنگلہ دیش،بھارت،سری لنکا،میانمار اور کئی افریقی ممالک میں آئے روز اخبارات میں عورتوںکی خریدوفروخت کی خبریں چھپتی رہتی ہیں ،روزگارکے حوالے سے جنسی استحصال کی بڑی دلخراش کہانیاں بھی منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں
ان سب عوامل ایسے ہیں جس سے نفرتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور ہمارا سماجی ڈھانچہ دھڑام سے گرنے والاہے اسلام دنیا کاواحد مذہب ہے جس نے عورت کوعزت سے نوازا۔اسے اعلیٰ مقام عطا کیا اب تو مسلمان عورتیں بھی آرائش و زیبائش میں مغربی ماحول سے کم نہیں کہتے ہیں دنیا کی تمام رنگینیاں عورت کے دم قدم سے ہیں شاید اسے بنیاد بناکر بڑے ہوٹلوں میں کیٹ شو،فیشن ڈیزائن اور برائیڈل مقابلوں کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا جاتاہے اور ہماری نامی گرامی شخصیات شرکت کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں
کہیں اعضاء کی شاعری کے نام پر ناچ گاناہوتاہے یہ ساری باتیں یہ تمام کام عورت کی عزت نہیں بلکہ فطرت کے خلاف عوامل ہیں اور جنسی بے راہروی کا ساخشانہ بھی۔جس سے مذہب سے بیزارمعاشرہ تشکیل پارہاہے جس میں عورت محص دل کے بہلانے والا کھلونا سمجھا جاتاہے اوریوں عورت کااحترام ہوتا جارہاہے یہ طرز ِ عمل ،یہ رویہ،یہ سلوک انتہائی خطرناک ہے جب کسی کااحترام ختم ہو جائے تواس کی اہمیت یقینا کم ہو جاتی ہے۔بہترین معاشرے کے قیام کیلئے عورت کی عزت و تکریم انتہائی ضروری ہے
اور یہ بات ہے بھی پر فیکٹ جو معاشرہ عورت کی عزت نہیں کرتا تباہ ہو جاتاہے شاید اسی لئے ہم تباہی کے گڑھے پر پہنچ چکے ہیں۔اسلام نے جتنی عزت و توقیرسے عورت کو نوازاہے دنیا میں تو اس کی مثال نہیں ملتی زمانہ قدیم میں تو بیٹے اپنی مائوںکو بیچ دئیے کرتے تھے کچھ سوتیلی مائوںسے شادی کرنا فخر سمجھتے تھے
یہ مذہب اسلام ہی ہے جس کی تعلیمات ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔عورتوںکو بھی اپنی عزت و ناموس کا خیال کرنا چاہیے ہم جتنا مذہب سے دور ہوتے چلے جائیں گے مسائل در مسائل کے جال میں پھنسنا یقینی ہے۔