57

پاپا مجھے مت مارو

پاپا مجھے مت مارو

دھوپ چھا ؤں
الیاس محمد حسین

ہائے معصوم جنت کے ننھے سے جسم پہ باپ کی فائرنگ ، پے درپے کی گولیوں کی بوچھاڑ،تڑپتاہوا ننھاجسم سراپا سوال ہوگا کہ پاپا میرا کیا قصورتھا ،مجھے کیوں مارڈالا ،میری ضرورت نہیں تھی تومجھے ایدھی کے پالنے میں ڈال دیتے۔۔ہائے پاپا تم نے تو میرا خون ہی کرڈالا ایسی ہی نہ جانے کتنے شکوے ،شکائتیں لے کر وہ ننھی پری اس عدالت میں جا چکی, جہاں انصاف ہی ہوگا, لیکن ہمارے لئے وہ ہزاروں سوال چھوڑکرچلی گئی

سوچنا ہمیں ہے کہ ہم اپنے بچے کی تربیت کرتے ہوئے اسے یہ شعور دیں, کہ ماں جنت, بیوی محبت, بہن عفت, بیٹی رحمت اور عورت معاشرے کا ایک قابل احترام حصہ ہے-ایک معصوم کی بیدردی سے جان لے لی گئی کتنی جہالت ہے اب گورنمٹ کوچاہیے کہ اس حیوان کو ایسی سزا دے کہ وہ دوسروں کیلئے عبرت بن جائے ۔خداکی پناہ سات دن کی نازک معصوم اور پستول کی پانچ گولیاں۔۔
آج اتنا دلخراش سانحہ لکھنے کو نہ تو ہاتھ تیار ہیں

نہ دل کی دھڑکن ساتھ دے رہی ہے۔شاید ایک ماں کا دکھ، پورے میانوالی کا سارے پاکستان کا کرب میں لفظوں میں ڈھال سکیں۔چند روزقبل ایک رحمت نے ایک ظالم باپ کے گھر آنکھ کھولی۔۔
آپریشن تھیٹر سے نرس معصوم بچی لے کر باپ کو مبارک دیتے ہوئے اسے پاپا کے ہاتھوں میں تھما نے کی کوشش کی ہوگی

۔۔لیکن باپ نہیں ایک ظالم درندے نے بنا دیکھے اسے بیڈ پہ پھینک دیا اور غصے میں گرج کرکہا۔۔مجھے بیٹی نہیں بیٹا چاہیے تھا ۔۔زخموں سے رِستے خون سے کرلاتی ،دردسے بے حال ماں نے کہاہوگا کہ، بیٹی تو روز محشر آپکو جنت میں ساتھ لے کر جائے گی۔ظالم باپ: مجھے نہیں چاہیے بیٹی سے مجھے نفرت ہے?۔ماں نے عاجزی سے ہاتھ جوڑ دئیے : اس میں میرا کیا قصور؟ میں نے تو اسے نو ماں پیٹ میں رکھا۔
مجھے بخار ہوا۔ دواء نہیں لی کہ بچے پہ اثر نہ ہو۔جو کھانے مجھے اچھے لگتے تھے چھوڑ دیئے کہ بچے کی صحت خراب نہ ہو جائے ۔اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے احتیاط کی کہ بچے پہ اثر نہ ہو۔درد سے کرلاتی رہتی تھی پر دواء نہیں کھاتی تھی کہ بچے پہ اثر نہ ہو جائے۔۔بھلا مجھے بتلاؤ تو سہی میرا قصور کہاں ہے؟؟
باپ چند منٹوں کی پیدا ہو ئی بچی کو بیڈ پہ پھینک کے روم سے چلا جاتا ہے۔فرشتے روتے نہیں لیکن زمین آسمان ضور کانپ کانپ گئے ہونگے جب ظالم باپ نے موقعہ پاتے ی پانچ گولیاں ایک معصوم کو مار دیں۔پہلی گولی پہ بیٹی نے کہا ہو گا۔۔۔بابا نہ مارو۔۔۔ جب آپ دفتر سے تھکے آؤ گے میں آپکے شوز اتارا کروں گی۔

۔ میں آپ کے کپڑے استری کیا کروں گی۔میں آپ کے انتظار میں پانی کا گلاس لئے روزانہ دروازے پہ آپکا انتظار کیا کروں گی۔دوسری گولی پہ اٹکتی سانسوں کے ساتھ کہا ہو گا۔۔بابا نہ مارو مجھے۔۔بیٹیاں تو پیارکرنے کیلئے ہوتی ہیں خداکے لئے اتناظلم نہ کرو یہ نہ ہو کہ میری ماں مجھ سے پہلے مر جائے بابا نہ مارو مجھے۔۔ میں کبھی آپ کو اپنی توتلی زبان سے پاپاکہوںگی اور کبھی بابا یہ دونوں کہنا مجھے اچھا لگے گا
میرے لئے سلے چھوٹے چھوٹے کپڑے میری ماں کو پاگل کر دیں گے۔ بابا نہ مارو مجھے۔۔ لیکن ظالم وحشی ،درندے نے ایک نہ سنی اورہائے معصوم جنت کے ننھے سے جسم پہ پے درپے کی گولیوں کی بارش وہ ننھی رحمت تو اپنی شکایت کے ساتھ اس عدالت میں جا چکی, جہاں انصاف ہی ہوگا, لیکن سوچنا ہمیں ہے کہ ہم اپنے بچے کی تربیت کرتے ہوئے اسے یہ شعور دیں, کہ ماں جنت, بیوی محبت, بہن عفت, بیٹی رحمت اور عورت معاشرے کا ایک قابل احترام حصہ ہیں- بیٹیوںسے پیارکریں یہ جنت کا راستہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں