عورت مارچ اور حقوق کا تعین
نائلہ مشتاق احمد دھون ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ لاہور
0307-6726700
ہر سال کی طرح اس سال بھی 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ در حقیقت ہر دن ہی عورت کا دن ہوتا ہے اور کوئی بھی دن عورت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے عورت کو مِلی کتنی آزادی؟ (جو بطور انسان اس کا پیدائشی حق ہے)۔ کتنی خواتین کو برابری کی بنیاد پر تعلیم دی گئی؟
کتنی بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کے ساتھ وراثتی نا انصافی نہیں برتی گئی؟ کتنی لڑکیوں کو اپنی مرضی اور خوشی سے لائف پارٹنر چننے یا کیریئر سلیکشن کا حق دیا گیا؟ اور کتنی معصوم بچیوں کو جینے کا حق دیا گیا۔
بند کمروں میں عورت کو پیٹنا کہاں کی معاشرتی روایت ہے؟ جہیز کم لانے پر جانوروں سے بدتر سلوک کس مذہب کی تعلیم ہے؟ کم عمری کی شادی، صنفی امتیاز، تیزاب گردی، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پہ قتل، جنسی ہرا سگی، ریپ اور تنگ نظری کس صحیفے میں لکھا ہے؟ دیہی اور کچے کے علاقوں میں اکثریت آج بھی عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خوش آئند بات ہے اگر آپ کے گھر کی خواتین بہتر زندگی گزار رہی ہیں، مگر ضروری نہیں کہ ہر عورت کو آپکے گھر جیسا ماحول میسر ہو۔ ان کا کیا جن کو منشاء سے سانس تک لینے کی آزادی میسر نہیں؟ ویمن ایمپاورمنٹ ایک بڑی مقصد ہے اس کو سمجھیں، اپنی عورتوں کا ساتھ دیں۔
چند آزاد خیال خواتین کی جانب سے لگائے بے مقصد قسم کے نعروں اور سلوگن سے تمام معاشرے کی خواتین کہ حقوق کی ترجمانی نہ ہوتی ہے۔ ایسی خواتین صرف کسی ذاتی ایجنڈے یا مغربی افکار کی ترجمانی کرتی ہے
جو کسی طور بھی ہمارے معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے۔ ایک عورت بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہوتی ہے اگر وہ کمزور ہے بھی تو صرف اس لیے کہ آپ نے اسے مضبوط فیصلے کرنے کا حق نہیں دیا۔ اپنی خواتین کو معاشی اور سماجی سطحوں پر مستحکم ہونے دیں، ان پر اعتماد کریں، انہیں فیصلے کرنے کا حق دیں۔ان کے جائز مقاصد اور جائز حقوق کے حصول میں ان کا بھرپور ساتھ دیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو