66

جادوئی چھڑی کا جھٹکا!

جادوئی چھڑی کا جھٹکا!

تحریر :شاہد ندیم احمد

اپوزیشن اتحادنے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے ساتھ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن بھی جمع کرادی ہے،اس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک بار پھر کا میابی کے متضاد دعوئے سامنے آرہے ہیں ،متحدہ اپوزیشن نے اُمید ظاہر کی ہے کہ ایک سو بہترسے زیادہ ارکار پارلیمنٹ کے ووٹ لے کر کا میاب ہوں گے ،اس کے مقابلے میں حکومت کا دعویٰ ہے

کہ حزب اختلاف 172 ارکان پورے نہیں کر پائے گی اور اسے ناکامی کاسامنا کرنا پڑے گا،جبکہ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے پتے سینے سے لگا رکھے ہیں اور وقت آنے پر ظاہر کریں گے ،تحریک عدم اعتماد کا میاب ہو تی ہے یا ناکام، مگردونوں صورتوں میںجھٹکا باہر حال عوام کو ہی لگے گا ۔
اس میں شک نہیں کہ تحریک عد اعتماد پیش ہوتے ہی ملکی سیاست میں مزید تیزی آگئی ہے ،اپوزیشن قیادت کاجہاں مختلف سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے ،وہیں وزیر اعظم بھی اپنے اتحادیوں کے علاوہ اپنے ناراض ارکارن پا رلیمان سے ملاقاتیں کررہے ہیں ،حکومت اور اپوزیشن کے

در میان ارکان پارلیمنٹ کا جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے ، آئی بی نے بھی وزیر اعظم کو رپورٹ دیے دی ہے کہ پی ٹی آئی کے 24ارکان اسمبلی ایسے ہیں کہ جنہوں نے اپوزیشن سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کر لیاہے کہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے،سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں کہ جو دوسری پارٹیوں سے حکومتی پارٹی میں آئے ہوئے ہیں۔
حکومت اور

اپوزیشن میں سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے ،یہ سیاسی موسمی پرندے مختلف سیاسی پارٹیوں میںرہتے ہوئے اشاروں کی زبان سمجھتے ہیں اور اشاروں پر ہی چلتے ہیں، اپوزیشن ایک طرف دعوئیدار ہے کہ حکو متی ارکان کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے ،جبکہ دوسری جانب خطرہ بھی محسوس کرر ہی ہے کہ کہیںمقتدر قوتوں کا غیر جانبدار انہ روئیہ تبدیل نہ ہو جائے ،اگر عین وقت پر فون کالوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا توایک بار پھر،تحریک عدم اعتماد چند ووٹوں سے

ناکام ہو جائے گی، اگر ایسا ہوگیا تو اپوزیشن کی جماعتوں کو زبردست سیاسی جھٹکا لگ سکتا ہے،یہ سیاسی جھٹکا اپوزیشن کے سیاسی مستقبل پر ایک سوالیہ نشان بن جائے گا ؟اپوزیشن بظاہر اعتماد کا مظاہ کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی راہ پر گامزن ہے ،مگر اندر سے بے یقینی میں بھی مبتلا ہے ،کیو نکہ اس کے ساتھ پہلے بھی ہاتھ ہو چکا ہے ،اس لیے ارکان پارلیمان سے سودے بازی کرتے ہوئے اشاروں کو نظر اندازنہیں کررہی ہے ،اپوزیشن کوئی مزیدسیاسی جھٹکا برداشت کرنے کیلئے تیار نہیںہے

،کیو نکہ اس سیاسی جھٹکے سے اپوزیشن کے لیے 2023 کے الیکشن میں منفی نتائج کے امکانات بڑھ جائیں گے ،لیکن اگر اس جھٹکے نے آئندہ الیکشن میں اپوزیشن کی جماعتوں کو انتخابی اتحاد بنانے پر مجبور کردیا تو پھر پی ٹی آئی کیلئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔اس ساری صورت حال کاوزیر اعظم عمران خان بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے نہ صرف خود متحرک ہیں ،بلکہ اپنے پارٹی کے دیگر رہنمائوں کو بھی مختلف ٹاسک دیئے ہوئے ہیں ، اپوزیشن کی طرح حکومت بھی تحریک عدم اعتماد کو سنجیدگی سے لے رہی ہے

،حکومت کے اتحادیوں کی جانب سے غالب گمان ہے کہ اپوزیشن قیادت کی بہت سی آفرز کے باوجود حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ،کیو نکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تبدیلی کا وقت نہیں ہے، وزیر اعظم نے بھی ایم کیو ایم سمیت اپنے دیگر اتحادیوں سے ملنے کے بعد ان کے تحفظات دور کرنے کا عندیہ دیا ہے ، جہانگیر ترین اور علیم خان بھی جلد ہی واپس آرہے ہیں اور امکان ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں اپنے اختلافات بھلا کر عمران خان کا ہی ساتھ دیں
گے۔
اس لیے تحریک عد اعتماد پیش ہونے کے بعد بھی حکومت پراعتماد دکھائی دیتی ہے ،اس خود اعتمادی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں کسی انجانے خوف کا شکار ہو نے لگی ہیں کہ سابقہ ادوار میں مختلف موقعوں پر ہاتھ میں آنے والی فتح اچانک شکست میں تبدیل ہو گئی تھی

،اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بار بھی اتنی مضبوط تیاری سے میدان میں اترنے والوں پر کوئی جادوئی چھڑی چل جائے، اگر کسی جادوئی چھڑی سے واقعی تحریک عدم اعتماد ناکاہو گئی کہ جس کے چانس بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں تو اپوزیشن کو بہت زور سے جھٹکا لگے گا ،لیکن اس کے ساتھ حکومت اور عوام بھی ہل کر رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں