بیٹی*خدا کی رحمت
تحریر
عبدالروف نفیسی
خواتین کے عالمی دن سے فقط ایک دن قبل میانوالی میں ایک ایسا دلخراش واقعہ پیش آیا جس نے ہرصاحب اولاد اور نرم مزاج انسان کو تو رلادیا اور اولاد جیسی نعمت کوترسنے والے جوڑوں اور معصوم پری کی ماں کے دلوں پہ جو قیامت گزری اس کا اندازہ ناممکن ہےایک سنگ دل باپ نے اپنی ہی پہلی نومولود سات دن کی بیٹی کو پانچ گولیاں مارکر قتل کردیا پتھردل انسان کو بیٹی نہی بیٹا چاہیٸے تھا اس واقعہ نے عرب کے مشرکین بدووں کی یاد تازہ کردی جو اپنی نومولود بیٹوں کو زندہ درگور کردیتے تھے
ملزم کے خلاف مقدمہ تودرج ہوگیا قانون کے مطابق سزا پاٸے گامگر سوشل میڈیا پہ جذباتی لوگ جس طرح نفرت کااظہار کررہے ہیں جلادو ماردو لٹکادو زندہ دفن کردو وغیرہ یقینا وقوعہ کی نوعیت ہی ایسی ہے ملزم کوسخت سے سخت سزا ہونی چاہیٸےمگر آٸیے ذرا جاٸزہ لیتے ہیں کہ بیٹیوں کا مقام کیا ہے
معاشرہ جن بیٹیوں کو قتل تو نہیں کرتا مگر زندہ رکھ کر سلوک کیسا کرتا ہےاور وہ عورتیں جو حقوق کے نام پہ روڈوں پہ دندناتی ہیں آٸیں دیکھیں اسلام نے ان کوکتنے حقوق عزت اورمقام دیا
ہمارے معاشرے میں بیٹی کو ناپسند کرنے کا یہ واقعہ پہلا ہے نا ہی نیا بہت سے گھرانوں میں بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے بیوی پر جسمانی اور ذہنی تشدد , طرح طرح کی باتیں , طلاق کی دھمکیاں , گھر سے نکالنا ,
کوستے رہنا اور اس کی زندگی کو جہنم بنا دینا، معمول بن چکا ہے قبل ازیں بھی اس طرح کی خبریں میڈیا کی زینت بن چکی شیخوپورہ کے ایک سنگدل نے اپنی بیوی کو صرف اس لیے قتل کر دیا تھا کہ اس کے بطن سے چھٹی بیٹی کیوں پیدا ہوئی شیخوپورہ میں ہی ایک باپ نے اپنی دس روز کی بیٹی کو پانی کے ٹب میں ڈبو کر قتل کر دیا
لاہور میں ایک رکشہ ڈرائیور نے دوسری بیٹی پیدا ہونے پر پہلی کو دریائے راوی میں پھینک دیا
لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں کئی مائیں دودھ ہی نہیں پلاتیں اور یوں بیٹی کے قتل کا ارتکاب کرتی ہیںبیٹی کی پیدائش پر اسے ہسپتال ہی چھوڑ آنا یا گاڑی کے اندر ہی چھوڑ جانا یا گلا دبا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا معمول کی خبریں ہیں اللہ کے لیے بیٹیوں سے ایسا سلوک مت کریںیہ بیٹیاں رب تعالی کی رحمت ہوتی ہیں
یہ بیٹیاں باپ کےسرکاتاج اور شہزادیاں ہوتی ہیں یہ بیٹیاں بھائیوں کاسہارا ہوتی ہیں باپ اور بھائیوں کےفیصلےکےسامنےاپنی خواہشات کودفن کردیتی ہیں یہ بیٹیاں ماں کےدکھ درد میں ہروقت شریک رہتی ہیںاے انسان ذرا سوچ کہ وہ عورت جو تیری ماں کے روپ میں ہے اور تیری جنت ہے
وہ بھی کسی کی بیٹی ہے
ایک ہی پیٹ سے نکلی تیری بہنیں تیری ماں کی بیٹیاں ہیں تو نے بھی کسی کی بیٹی سے ہی نکاح کیا ہے اگر آج اللہ نے تیرے گھرپر بھی رحمت نازل کی ہے تو وہ تجھے اب کیوں زحمت لگنے لگی ہے۔۔۔❓
بیٹی کا قتل کبیرہ گناہ ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ
اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔
التكوير : 8
بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ
کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی؟
التكوير : 9
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔
الإسراء : 31
یہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کا سبب موجودہ یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے آج بیٹیوں کے قتل کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں یہی خوف کارفرما ہے کہ بیٹی بڑی ہو کر بوجھ بنے گی
اسے جہیز دینا پڑے گا
کما کر کھلانا پڑے گا
اور ایسے لوگ جو عورت کو ہوس پوری کرنے کاسامان سمجھتے ہیں ان کے گندے ذہنوں میں یہی ہوتا ہے کہ ہماری بیٹی کسی کی بیوی کیوں بنے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ إِنَّ ذَلِكَ لَعَظِيمٌ قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ
(بخاری، كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم [البقرة: 22]7520)
کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے
۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو
بیٹی کی پیدائش پر منہ چڑھانا تو کفار کا طریقہ ہے اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی حالت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ
حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جائے جس کی اس نے رحمان کے لیے مثال بیان کی ہے تو اس کا منہ سارا دن سیاہ رہتا ہے اور وہ غم سے بھر ا ہوتا ہے۔
الزخرف : 17 سورہ نحل میں ہے
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا منہ دن بھر کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔
النحل : 58
يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ آیا اسے ذلت کے باوجود رکھ لے، یا اسے مٹی میں دبا دے۔ سن لو! برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
النحل : 5 اللہ کی مرضی ہے بیٹی عطا کرے یا بیٹا یا دونوں یا کوئی بھی نہیں
بیٹی جنم دینے میں بیوی بے قصور ہے بلکہ میاں اور بیوی دونوں ہی بے قصور ہیں کیونکہ یہ فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔
الشورى : 49
أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
الشورى : 5
بیٹی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے
’’ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا ‘‘ میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا گیا ہے۔
جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ کسی عام ذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ تحفہ پر منہ چڑھانے کی وجہ سے کہیں اس کے غضب کا شکار نہ بن جائیں
اور کسی ایسے جوڑے کے احساسات معلوم کرنے چاہییں جنھیں لڑکی بھی عطا نہیں ہوئی۔
بیٹی کا ذکر بیٹے سے پہلے کیوں
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹیوں کا ذکر فرمایا، پھر بیٹوں کے عطا فرمانے کا ذکر کیا۔
فرمایا
يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ
امام ابن قیم اس بارے لکھتے ہیں:
’’أَنَّہ سُبْحَانَہُ قَدَّمَ مَا کَانَتْ تُؤَخِّرُہُ الْجَاھِلِیَّۃُ مِنْ أَمْرِ الْبَنَات، حَتَّی کَأَنَّ الْغَرَضَ بَیَانُ أَنَّ ھٰذَا النَّوْعَ الْمُؤَخَّرَ الْحَقِیْرَ عِنْدَکُمْ مُقَدَّمٌ عِنْدِيْ فِيْ الذِّکْرِ۔‘‘
(التفسیر القیم ص ۴۳۳؛ ) اللہ سبحانہ وتعالی نے بیٹیوں کو مقدم کیا ہے، جن کو اہل جاہلیت مؤخر کرتے تھے، گویا کہ یہ بیان کرنا مقصود تھا، کہ تمہاری طرف سے نظر انداز کی ہوئی یہ حقیر قسم میرے نزدیک ذکر میں مقدَّم ہے
بیٹیاں تو محبت کرنے والی ہوتی ہیں
امام احمد اور امام طبرانی نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تَکْرَھُوْا الْبَنَاتِ فَإِنَّہُنَّ الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِیَاتُ۔‘‘
[بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو، کیونکہ یقینا وہ تو پیار کرنے والیاں اور قیمتی چیز ہیں]
بیٹیاں ہی دکھ درد میں والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہیں عورت فطری طور پر محبت کی مٹی میں گوندھی ہوتی ہے مامتا اس کا بنیادی وصف ہے وہ بہن کے روپ میں بھی مامتا سے مالا مال ہوتی ہے چھوٹے بہن بھائیوں سے اس کا طرز عمل ماں جیسا ہوتا ہے
ایسے واقعات بہت ہیں کہ بہن مالدار ہوتو بھائیوں کا ضرور خیال رکھتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہے کہ بھائی مالدار ہوں اور بہن کا خیال رکھتے ہوں
بہت جگہوں پر مشاہدہ کیا گیا ہے مثال کے طور پر ایک شخص چوک اعظم میں رہتا ہے اس کے چار بیٹے اور چار ہی بیٹیاں ہیں
ایک بیٹی کی شادی لاہور دوسری کی
کوٹ ادو تیسری کی بھکر اور چوتھی کی شادی ملتان میں کی گئی ہو جب کبھی وہ شخص بیمار ہو یا ان بیٹیوں کی ماں بیمار ہو تو گھر میں موجود چاروں بیٹے تو شاید خدمت کریں یا نہ کریں لیکن وہ چاروں بیٹیاں ضرور حاضر خدمت ہوں گی چاہے وہ اکٹھی آجائیں یا آپس میں باری مقرر کرکے ایک ایک ہفتہ آتی رہیں یہ سب
الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِیَاتُ کی عملی تصویر ہے
بیٹیاں دوزخ کی آگ کے سامنے پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی اسلام نے بیٹیوں کے حقوق کما حقہ ادا کرنے والوں کو اس قدر خوشخبریاں دی ہیں کہ اتنی خوشخبریاں دس بیٹے رکھنے والوں کو بھی نہیں دی گئی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’مَنْ کَانَ لَہُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ، وَأَطْعَمَھُنَّ، وَسَقَاہُنَّ، وَکَسَاھُنَّ مِنْ جِدَتِہِ کُنَّ لَہُ حِجَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘
أخرجه أحمد (17403)، والبخاري في “الأدب المفرد” (76)
[جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، اور وہ ان پر صبر کرے، انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے، تو وہ اس کے لئے روزِ قیامت پردہ ہوں گی (یعنی دوزخ کی آگ کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی۔)
بیٹیاں جنت میں لے جانے کاسبب ہونگی
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِكُ لَهُ ابْنَتَانِ فَيُحْسِنُ إِلَيْهِمَا مَا صَحِبَتَاهُ أَوْ صَحِبَهُمَا إِلَّا أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ
(ابن ماجة، كِتَابُ الْأَدَبِ، بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ،حسن، 3670)
جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں اور وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں،یا جب تک وہ ان کے ساتھ رہے ، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کردیں گی۔
(جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں۔)
کا مطلب یہ ہے کہ ان کا نکاح ہو جانے تک ، یا نکاح سے پہلے فوت ہو جانے تک ان سے اچھا سلوک کرے، ان کی اچھی تربیت کرے، ان کی جائز ضروریات پوری کرے۔
بیٹیوں کی پرورش اور تربیت کرنے والا جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے ہوگا جیسے ہاتھ کی ایک انگلی دوسری کے ساتھ ہوتی ہے
بيٹی کی پرورش کرنے والی ماں جنت میں داخل ہو گی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بیٹیاں اٹھائی ہوئی تھیں، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے کہا ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دی، (بچی ہوئی) ایک کھجور کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی، تو وہ بھی اس کی دو بیٹیوں نے کھانے کے لیے مانگ لی، اس نے وہ کھجور بھی جو وہ کھانا چاہتی تھی، دو حصے کر کے دونوں بیٹیوں کو دے دی۔ مجھے اس کا یہ کام بہت اچھا لگا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَوْجَبَ لَهَا بِهَا الْجَنَّةَ أَوْ أَعْتَقَهَا بِهَا مِنْ النَّارِ
(مسلم، كِتَابُ الْبِرِّ6694)
“اللہ نے اس (عمل) کی وجہ سے اس کے لیے جنت پکی کر دی ہے یا (فرمایا: ) اس وجہ سے اسے آگ سے آزاد کر دیا ہے۔”
’’انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔
امام احمدکے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں، کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ، تو وہ فرماتے:
’’ اَ لْأَنْبِیَائُ کَانُوا آبَاء بَنَاتٍ۔‘‘
[’’انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘]
بیٹی کی پرورش کے حوالے سے یہی بات بہت بڑی ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی چار بیٹیوں سیدہ رقیہ سیدہ زینب سیدہ ام کلثوم سیدہ فاطمہ رضوان اللہ علیہا کے باپ تھے اور آپ کو بیٹیوں سے بہت محبت تھی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جایا کرتے۔ عموماً سفر سے واپسی پر ازواج مطہرات کے حجروں میں جانے سے پہلے انہی کے گھر جاتے۔
آپ اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لیے اٹھ کر آگے بڑھتے انہیں خوش آمدید کہتے۔ انہیں بوسہ دیتے۔ ان کا ہاتھ تھام لیتے اور مجلس میں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھاتے۔ بیٹی کے استقبال میں ان سب باتوں کا اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے بیٹی کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا
فرمایا
فاطمۃ بضعۃ منی من اغضبھا فقد اغضبنی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو تھکاوٹ کی پریشانی کا تریاق بتاتے ہوئے تحفہ دیا فرمایا سبحان اللہ الحمدللہ اللہ اکبر نماز کے بعد اور بستر پر آنے کے بعد 33 بار پڑھا کر جس کوتسبیح فاطمہ کہتے ہیں
اپنی بیٹیوں کو صبر کی تلقین فرماتے۔ صاحبزادی کو اپنی وفات کی قبل از وقت خبر دیتے وقت تقویٰ اور صبر کی تلقین فرمائی۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادیوں کا خود اہتمام فرمایا،
رخصتی کے وقت بیٹیوں کو تحائف دئیے،
بیٹی کی وفات پر شدتِ غم کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، لیکن زبان سے صبر کے منافی ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ صاحبزادیوں کی وفات پر شدتِ الم و رنج کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تجہیز، تکفین اور تدفین کا بندوبست ذاتی نگرانی میں کرواتے
مگر ہمارے معاشرہ میں
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر بیٹا والدین کے سامنے بہنوں کو مار رہا ہو یا گالیاں دے رہا ہو تو والدین کچھ بھی نہیں کہتے لیکن اگر کبھی بیٹی ایسا کرے تو فوراً ٹوک دیتے ہیں بیٹا غلطی کرے کسی کی عزت برباد کردے تودفاع کرتے ہیں پیار سے سمجھاتے ہیں تاوان برداشت کرتے ہیں اور آرام سے کہ دیتے ہیں منڈے کھنڈے ہیں جوانی دیوانی ہوتی ہے وغیرہ
اوراگر بیٹی سےغلطی کرے تو ڈانٹتے ہیں جبر کرتے ہیں ظلم کرتے ہیں غیرت جاگ جاتی ہے یہ دوہرا معیار ناانصافی اور ظلم ہے
بیٹا بیمار ہو تو والدین کی جان پر بن جاتی ہے بیٹی بیمار ہو تو فکر ہی نہیں ہوتی
عام طور پر بیٹے کو ترجیح اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ معاشی سہارا بنتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ بیٹی کچھ بھی نہیں کماتی حالانکہ اگر بیٹی کچھ نہیں کماتی تو بیٹے بھی جب کمائی کے قابل ہوتے ہیں تو اکثر والدین کو ان کی کمائی پر اختیار ہی نہیں ہوتابلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ گھر میں رزق بیٹی ہی کی وجہ سے آ رہا ہو کیونکہ بیٹی کمزور ہوتی ہے اور حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( تم اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیئے جاتے ہو) بیٹی کے متعلق خیال ہوتا ہے کہ اس نے پرائے گھر چلے جانا ہے جبکہ اکثر بیٹے بھی شادی کے بعد الگ گھر آباد کرلیتے ہیں اگر بیٹی کی حفاظت ایک داخلی معاملہ ہے تو بیٹے کو کنٹرول کرنا ایک خارجی اور اس سے بھی سخت معاملہ ہے
بیٹی کو جہیز دینا پڑتا ہے تو بیٹے کے لیے بھی بری بنانا پڑتی ہے دونوں کی شادی کے اخراجات تقریباً برابر ہیں اس پر مستزاد یہ کہ بیٹے کو مہنگا مکان بنا کر دینا پڑھتا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے سے نسل چلتی ہے، یہ تصور انتہائی فرسودہ ہے لوگوں کو دوسری تیسری نسل میں دادا پردادا کا نام تک یاد نہیں رہتا اور اتنی دیر تو لڑکی کی اولاد یعنی نواسے نواسیاں بھی یاد رکھ لیتی ہیں کہتے ہیں کہ بیٹا بڑا ہو کر باپ کی جگہ کام کرتا ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بیٹی بھی بڑی ہو کر ماں کی جگہ کام کرتی ہے نہیں تو کسی ایسے جوڑے سے مل کر ان کے حالات پوچھ لیں جن کے چھے سات بیٹے ہوں اور بیٹی کوئی بھی نہ ہو معروف بات ہے کہ اگر بیٹا نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے
بعض اوقات بیٹی، بیٹے سے بہتر ہوتی ہے
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عمران کی بیوی کا تذکرہ کیا ہے اس نے اللہ تعالیٰ سے بیٹا مانگا تھا لیکن اللہ نے اس کو بیٹے سے بھی اچھی نیک اور بلند مرتبہ والی بیٹی عطا فرمائی وہ کہنے لگی
اے میرے رب! یہ تو میں نے لڑکی جنی ہے
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى
آل عمران : 36
اور لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں ہوسکتا تھا
اور وہ لڑکی واقعی کمال ثابت ہوئی بلکہ بہت سے مردوں سے مقام و مرتبہ میں بلند ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيْدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ ]
[بخاري، أحادیث الأنبیاء،[
’’مردوں میں سے بہت سے کامل ہوئے ہیں، مگر عورتوں میں فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم کے سوا کوئی کامل نہیں ہوئی اور عائشہ کی عورتوں پر برتری ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی برتری تمام کھانوں پر۔‘‘
ایسی کمال کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران کا بیان فرمایا ہے کہ دونوں اعلیٰ درجے کے ایمان والی تھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ بیٹی کی وجہ سے بیٹے سے بھی اچھا داماد مل جاتا ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات یعنی امھات المؤمنین کی مثال ہمارے سامنے ہے
امھات المؤمنین کے وہ والدین اور بہن بھائی جو مسلمان تھے وہ کتنے خوش نصیب ہیں جن کے گھروں میں ایسی بیٹیوں اور بہنوں نے جنم لیا کہ جو بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر امھات المؤمنین کے لقب سے سرفراز ہوئیں
اور ایسا مقام ملا کہ کائنات میں ممتاز ہو گئیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ
ابو بکر صدیق، عمر فاروق، ابوسفیان اور ان کی بیوی ھند رضی اللہ عنہم اجمعین کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جن کے گھروں میں ایسی بیٹیوں نے جنم لیا کہ انہیں ان بیٹیوں کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم داماد ملا کہ جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے
اور
عبدالرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن عمر اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو ان بہنوں کی وجہ سے خال المؤمنین کہلائے
ہند بنت عوف،بیٹیوں کی وجہ سے بننے والی دنیا کی منفرد ترین ساس
ان کی خاص بات ان کی بیٹیاں ہیں جن کی نسبت سے انہیں چند عظیم ترین داماد حاصل ہوئے۔
ان کی بیٹیوں میں ام المومنین زینب بنت خزیمہ، اور ام المونین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنھما شامل ہیں۔
یعنی دونوں امہات آپس میں ماں شریک بہنیں تھیں اور نبی ﷺ نے ام المومنین میمونہ ؓ سے نکاح ام المومنین زینب بنت خزیمہ ؓ کی وفات کے بعد کیا تھا۔
یعنی ہند بنت عوف وہ خاتون ہیں جو دو بیٹیوں کی نسبت سے نبی پاک ﷺ کی ساس ہیں۔اللہ تعالیٰ نے وراثت کی آیت میں بیٹوں، بیٹیوں، خاوند ،بیوی اور والدین کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا
لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا
تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے۔
النساء : 11
عین ممکن ہے بعض اوقات بیٹے میں بیٹی سے زیادہ نفع ہو اور بعض اوقات معاملہ اس سے الٹ ہوتا ہے
ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں لیہ کے رہائشی ایک بزرگ کا واقعہ ہے اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی شاھکوٹ کے نواحی دیہاتوں میں رہتے ہیں ایک دن وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو ملنے ان کے علاقے کی طرف نکلا شاھکوٹ شہر میں پہنچا تو رات ہوچکی تھی اب شہر سے دیہات تک پہنچنے کے لیے سواری کا بندوبست نہ تھا
بابا جی نے پہلے اپنے بیٹے کو کال کی کہ آئیں اور مجھے شہر سے لے جائیں بیٹے نے آگے سے صاف انکار کر دیا بلکہ جھڑکتے ہوئے کہنے لگا کہ ہمارے پاس آنے کا یہ کون سا وقت ہے
بابا جی نے بیٹے سے
مایوس ہو کر بیٹی کو فون کیا تو بیٹی نے فوری طور پر کہا ابا جی آپ انتظار کریں میں جلدی اپنے میاں کو بھیجتی ہوں بیٹی نے میاں کو بھیجا اور وہ سسر کو گھر لایا والدین اور بھائیوں سے گزارش اپنی اولاد اور بہنوں میں برابری کریں ان کوحق وراثت سے محروم نہ کریں جس بیٹے کا شریعت کی طرف سے ملنے والے ڈبل حصہ پر بھی گزارہ نہی ہوتا وہ بہن کاحصہ کھاکر بھی کنگال ہی رہے گااور باپ کیلٸے جہنم کے انگارے الگ اولاد میں برابری نہ ہونے اور بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دینے
کے باعث بچیوں کی نشوونما نفسیاتی الجھنوں ، حسد اور نفرت کے ساتھ ہوتی ہے اور ایسی بچیاں بے حس اور خود غرض ہو جاتی ہیں ۔بہت سے والدین جو اپنے بیٹے کو نازونخرے سے پالتے ہیں اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں اور بیٹی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بات بات پہ ٹوکتے ہیں ایسی بیٹیاں احساس ذمہ داری سے محروم ہو
کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کی خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہےاللہ کے بندو ❗سسرال میں جانے کے بعد ان بیٹیوں بہنوں کو ناجانے کیا کیا مصائب سے گزرنا پڑے جب تک تمہارے ساتھ ہیں تب تک تو انہیں سکون پہنچنا چاہیےاور جب کبھی یہ بہن بیٹی سسرال سے واپس اپنے آبائی گھر لوٹے تو تیوری چڑھانے کی بجائے خوش دلی سے ملاقات کیا کرو ہوسکتا ہے وہ سسرال کے
ہزاروں دکھوں کی ستائی ہوئی چند ٹھنڈی سانسیں لینے تمہارے گھر آئی ہواس لیے ضروری ہے کہ بیٹیوں کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کیا جائے یہی وہ برتاؤ ہوتا ہے جس کی بناء پر بچی اپنا ہر دکھ درد ماں باپ کے ساتھ بانٹتی ہے۔یہی محبت و شفقت کا برتاؤ اس کی زندگی میں بغاوت و نفرت کو داخل ہونے نہیں دیتا۔ وہ ابتداء سے انتہا تک اپنی اپنے والدین کی اور بطور مسلم اسلام کی عزت پر آنچ آنے نہیں دیتی
۔ آٸیے میانوالی کے اس شخص کو کوسنے سے پہلے اپنے گھروں کاجاٸزہ لیں کہیں ہم اپنی بہنوں بیٹیوں کو زندہ درگور تو نہی کرچکےایساتو نہیں کہ ان کے جسم تو زندہ تو ہیں مگر ہماری ناانصافیوں اور وراثت سے محرومیوں کے باعث اندر سے قتل ہوچکی ہوں۔۔