جھگڑا ’میں اور ’تو کاہے !
جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی
درویش سے کسی نے پوچھا وہ کی کون سی چیز ہے جو 1ہے2 نہیں،2ہے3 نہیں، جو3 ہے4 نہیں، جو 4ہے5 نہیں، جو 5ہے6 نہیں، جو 6ہے7 نہیں، جو 7ہے8 نہیں، جو 8ہے9 نہیں۔درویش کے چہرے پر ہلکا سا تبسم پھیلا۔مسکراکر بولے ہمارا امتحان لینا مقصودہے؟۔سوال کرنے والے کا انداز شرارت آمیز تھا۔درویش نے کہا کبھی کسی کا امتحان نہیں لینا چاہیے ۔ہو سکتاہے اس وقت دوسرا مجبور ہو اور تمہاری توقعات پر پورا نہ اترے ویسے بھی زندگی انسان کا قدم قدم پر امتحان لیتی ہے اور یہ دنیا تو ہے
ہی امتحانی سینٹر جہاں تک تمہارے سوال کا تعلق ہے دل و دماغ کے دریچے کھول کر سنو 1ہے جو2 نہیں ہے وہ ہے اللہ، 2ہے جو3 نہیں وہ ہیں عیدیں عیدالفطر اور عیدالاضحی، 3ہے جو4 نہیں وہ ہیں زندگی کے حصے بچپن، جوانی اور بڑھاپا، 4ہے5 نہیں ہے وہ ہیں چار آسمانی کتابیں تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید، 5ہے6 نہیں ہے وہ ہیں نمازیں فجر،ظہر،عصر،مغرب اور عشاء ، 6ہے7 نہیں ہے وہ ہیں
چھ کلمے، 7ہے8 نہیں ہے وہ ہیں سات آسمان، 8ہے9 نہیں ہے وہ ہیں جنت کے دروازے ۔درویش نے سوال کرنے والے کے کندھے پرہاتھ رکھ کر کہا تم نہیں جانتے جنت کے دروازوںکی تعداد آٹھ ہے اور میری آپ سب کے لئے دعاہے کہ روز ِ محشر جنت کے ہر دروازے سے آپ کے نام کی صدا آئے آپ اس دروازے سے جنت میں داخل ہوں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو جنت کااہل بھی ثابت کریں
۔ایک راز کی بات بتاتا چلوں جن لوگوں کے دل میں انسانیت کا درد ہو اس پر دوزخ کی آگ حرام ہے لیکن دنیا دار سمجھتے ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے لاکھوں کروڑوں فرشتے دن رات مصروف ہیں دنیا کی تخلیق کا مقصد ایک دوسرے کے کام آنا ہے۔ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ بڑی دیر سے مضطرب ایک شخص نے پوچھ ہی لیا۔ حضرت ایک بات بتائیں دنیا میں ہر شخص دکھی کیوں ہے؟۔درویش نے
سرہلایا چہرے پر پھر مسکراہٹ پھیل گئی۔ کمال کا سوال کیاہے ؟واہ بھی واہ۔ غور سے سنو ۔درویش نے کہا خوشیاں سب کے پاس ہیں لیکن کوئی اس میں دوسروںکو شریک نہیں کرنا چاہتا اس لئے ایک کی خوشی دوسرے کا دردبن جاتی ہے دنیا والے شاید جاننا اور سمجھنا نہیں چاہتے کہ خوشیاں بانٹنے سے جو انسان کو روحانی خوشی ملتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں اس سے خوشیوںکا لطف دوبالاہوجاتاہے ازمائش کرنا چاہو تو مایوسی نہیں ہوگی۔۔خوشیاں بانٹنے سے اللہ کی رحمت کو جوش آجاتاہے لیکن شاید
سارا عالم ہوکاہے
جھگڑا’’ میں‘‘ اور’’ تو ‘‘کاہے
انسان کی میں۔ میں نے اتنے فتنے،مسائل اورفساد برپا کرکے رکھ دئیے ہیں کہ شمار ممکن نہیں ۔ ویسے بغوردیکھا جائے تویہ میں میں۔ انسانیت کی نفی ہے کوئی اپنی ذات سے آگے سوچنا بھی حرام سمجھتاہے ۔درویش نے اشارے سے کہا میرے اور قریب آجائو تمہیں ایک بادشاہ کا ایک مزیدار واقعہ بتاتاہوں یہ بادشاہ پہلے ایک غلام تھا ۔۔فروخت درفروخت کے بعد ہندوستان لایا گیا۔نہیں جانتے وہ کون تھا؟ سنو!
تاریخ اسے قظب الدین ایبک کے نام سے جانتی ہے ایک روز یہ بادشاہ شکار کھیلتے کھیلتے دور نکل گیا آبادی کے کچھ آثار نظر آئے تو وہ سستانے کے لئے رک گیا کچھ فاصلے پر ایک شخص نظر آیا اس نے گھوڑے پر سوار مسافرکو دیکھا تو دوڑتاہوا آیا اسے علم نہیں تھا یہ نووارد بادشاہ ہے۔ اس نے پانی کا ایک برتن مسافرکے پاس رکھ دیا اور پوچھا آپ کہاں سے کیسے اِدھر آئے ہیں۔۔مسافرنے کہا میں اپنے ساتھیوںسے بچھڑ کر اس طرف آنکلاہوں۔ قظب الدین ایبک کو اس شخص کی باتوں سے دانائی کی مہک آرہی تھی
۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کیا کرتے ہو؟’’محنت مزدوری۔گذر اوقات کے لئے کچھ گائے،بکریاں ،بھینسیں پال رکھی ہیں ،جنگل سے لکڑیاں بھی کاٹ کر فروخت کردیتاہوں’’پھر بھی دن میں کل ملاکر کتنا کما لیتے ہو؟۔ قظب الدین ایبک نے سوال کیا’’زیادہ سے زیادہ چار پیسے۔ اس شخص نے جواب دیا
’’ان پیسوں کا کیا کرتے ہو؟۔ اس شخص نے ایسا جواب دیا جس کی قظب الدین ایبک کو توقع ہرگزنہ تھی اس نے کہا ایک پیسہ خود پر خرچ کرتاہوں۔ ایک پیسہ قرض دیتاہوں۔ ایک پیسہ قرض واپس کرتاہوں اور چوتھا پیسہ کنوئیں میں ڈالنا میرا معمول ہے۔ قظب الدین ایبک نے حیرانگی سے کہا تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اس نے کہا مطلب ظاہر ہے۔ ایک پیسہ گھرکی ضروریات پر خرچ ہوتاہے۔
ایک پیسہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر صرف کرتاہوں جب ہم میاں بیوی بوڑھے ہو جائیں تو اولاد ہماری خدمت کرکے یہ قرض لوٹا دے۔ ایک پیسہ اپنے بوڑھے والدین کی ضروریات اور دوا پر خرچ کرتاہوں یہ ان کا مجھ پر قرض ہے اور ایک پیسہ جو میں کنوئیں ڈالتاہوں نیکی کر دریا میں ڈال کے مصداق۔ یہ خیرات کرتاہوں تاکہ آخرت میں مجھے اس کا اجر ملے۔سنو لوگو درویش نے کہایہ دانائی کی باتیں سنانے کا مقصد یہ ہے
کہ ہم ان سے کچھ سبق حاصل کریں خوب اچھی طرح جان لو صرف اپنی ذات کے متعلق سوچنا رہبانیت ہے۔ اسلام تو دین اور دنیا دونوں میں توازن چاہتاہے دن رات عبادت کرنے والوں کے لوگوں کے ساتھ معاملات بہتر نہ ہوں۔تعلقات کشیدہ ہوںاور وہ احساس ِ برتری کے زعم میں مبتلاہوجائیں تو ایسی عبادت۔عبادت نہیں ہمارے سامنے ہادی ٔ برحق ﷺ کی پوری زندگی ایک مثال ہے ان کا اسوہ ٔ حسنہ ہمیں قدم قدم پر جھنجھوڑ کررکھ دیتاہے غور کریں نبی پاک ﷺ ہر معاملے میں سچے اور کھرے نظر آئیں گے
ان کی پوری سیرت ِ مبارکہ روشن روشن ۔جگ مگ جگ مگ ہے آپ ﷺنے ہمیشہ سچے کا ساتھ دیا بے شک دشمن ہی کیوں نہ ہو اور ہم سب کا وطیرہ یہ ہے کہ ہم باتیں بہت کرتے ہیں اپنا بھی یہی حال ہے۔شاید یہ دنیا ہی۔جھگڑا میں اور تو کاہے آج ہرروشن پہلو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ یقین جانو عاجزی اختیارکرنے والا افضل ہے یہی وجہ ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنے والا دوسروں سے بہتر کہا گیاہے آسمان پر اڑتے ہوئے ایک پرندے سے کسی نے پوچھا تمہیں بلندی سے زمین پر گرنے کا خوف نہیں؟
۔ پرندے نے مسکراکرجوابدیا میں انسان نہیں ہوں جو ذرا سی بلندی پر جاکر اکڑ جائوں میری نظریں ہمیشہ زمین پر ہوتی ہیں۔کچھ سمجھ میں آیا کم ازکم ہمیں پرندے جیسی روش ہی اختیارکرلینی چاہیے اس میں بہتوںکا فائدہ ہے۔روایات، واقعات ،قصے کہانیاںاورحکایات انسان کی تربیت کے لئے ہوتی ہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ فائدہ ہر شخص کو اچھا لگتاہے