سیاسی تصادم میں آمریت کی آہٹ ! 31

عدم اعتماد میںہار عوام کی ہو گی !

عدم اعتماد میںہار عوام کی ہو گی !

تحریر :شاہد ندیم احمد

اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے وزیراعظم اور ان کے رفقاء کا غم و غصہ دیدنی ہے، حکومتی وزراء کی زبانیں شعلے اْگل رہی ہیں، حریفوں کے نام بگاڑے جا رہے ہیں، انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں، خرید و فروخت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، اپوزیشن کی طرف سے بڑھ چڑھ کر گولہ باری جاری ہے۔،سیاست میں حد ادب کو پھلانگتے ہوئے خواتین خانہ تک کوگھسیٹا جا رہا ہے،

ملکی معیشت دباؤ کا شکار ہے، بے یقینی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے، مہنگائی کا طوفان ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے، امن و امان کی صورت حال دگرگوں ہے، مگر سیاسی قیادت عوامی مسائل کا تدار کرنے کی بجائے آپس میں ایسے دست گریباں ہے کہ جیسے ایک ملک کے شہری نہیں، بلکہ دشمن ممالک کی فوجیںآ منے سامنے ہیں،سیاست میںضابطہ ء اخلاق کی پابندی کرنے کی بات کوئی سننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میںآئینی و اخلاقی حدود پار کی جارہی ہیں،سیاست میں بڑھتے انتشار کا سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کے ساتھ عوام کو ہی اُٹھانا پڑے گا۔
اس میں شک نہیں کہ سیاست میں بڑھتی محاذ آرائی کا سب سے زیادہ نقصان جمہوریت اور عوام کا ہی ہو گا ، اس سے قبل بھی سیاست کی محاذ آرائی میں جمہوریت کی جگہ آمریت کو فروغ ملا اور عوام نے عر صہ دراز تک آمرانہ نظام بھگتا ہے ،جبکہ سیاسی قیادت آمریت کی چھتری تلے بھی اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں ،سیاسی قیادت جتنا مرضی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے جمہوریت کے نعرے لگائے

،مگر جمہوریت کمزور کرنے کے خود ہی ذمہ دار رہے ہیں،سیاسی قیادت اپنے مفاد میں ہی جمہوریت کا نعرالگاتے ہیں اور اپنے مفاد کے پیش نظر ہی آمریت کی چھتری تلے چلے جاتے ہیں، سیاست میں ساری محاذ آرائی جمہورت اور عوام کیلئے نہیں ،حصول اقتدار کیلئے ہوتی ہے ، جبکہ عوام کی قسمت میں ذلیل وخوار ہونا لکھ دیا گیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام نے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے آزمائے ہوئے مسترد کرکے ایک نئی قیادت کو اقتدار سونپا تھا ،مگر اس نئی قیادت نے بھی پونے چار برس میں جو کچھ کیا اور اب جو کچھ کہہ رہے ہیں ،اس کا عوام کو کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے،اس کے باوجود وزیر اعظم بضد ہیں کہ ملک میں جتنی ترقی ہوئی ہے،

حکومت کے آخری سال میں اتنی مزید ترقی ہوگی۔ وزیراعظم پتا نہیں کون سی ترقی کی باتیں کرتے ہیں، ملک میں صرف مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی نے ترقی کی ہے، کیا ایسی ہی ترقی ایک سال تک مزید ہوتی رہے گی؟ یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے،ایک طرف ملک کے عوام پریشان حال ہیں اور وزیراعظم عوام کی پریشانیاں دور کرنے کی بجائے چوہوں کا شکار کر نے کے دعوئے کررہے ہیں۔
وزیر اعظم شیر سے لے کر چوہوں تک کا شکار ضرور کریں ،مگر اس کے ساتھ بڑھتے مسائل کے شکار عوام کا بھی مدواکرنے کی کوشش کرنی چاہئے، وزیراعظم کو ایسانہیں کہنا چاہئے کہ انہیں اپنے دور اقتدار میں آلو، ٹماٹر کے بڑھتے بھائو معلوم نہیں ہیں ،اگر انہیں عوام کے روزمرہ ضروری اشیاء کے بھائو معلام نہیں تو پھر عوام کو مہنگائی سے کیسے نجات دلا سکیں گے؟عوام خوش حال ہو گی

تو حکومت مضبوط ہو گی ،ورنہ اپوزیشن یو نہی عوام کا نام لے کر تحریک عدم اعتماد پیش کرتی رہے گی ، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو پھر وزیراعظم کو حقیقی معنوںمیں ہر چیز کے بھائو پتا چل ہی جائیں گے، عوام کیلئے توآئے روز بھائو بدلتے ہیں، لیکن سیاست کے بھید بھائو ایسے ہوتے ہیں کہ ہر لمحہ بدلتے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملکی سیاست کے بھائو کے ساتھ ہوائیں بھی بدل رہی ہیں ،اس کا اندازہ موسمی پرندوں کے گھونسے بدلنے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،وزیر اعظم درست کہتے ہیں کہ چوری کے پیسے سے ضمیر خریدے جارہے ہیں، اس سے قبل ایک طیارہ بھر کر فروخت شدہ ضمیروں کا ان کے قدموں میں بھی ڈالا گیا تھا ، اس بار کسی اور پر کسی اور کےپیسے سے اعتماد کی مہم چلائی جارہی ہے،

اگر ضمیر خریدے جارہے ہیں تو کس کے خریدے جارہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے ضمیر بیچ کرہی پی ٹی آئی میں آئے تھے،مگر انہیں جمہوریت کا چیمپئن قرار دیا جاتا رہا ہے، سیاست میںغلاظت بھرے نظام کی سرپرستی کرنے والوں کو اب بس کر دینا چائے،آخر کب تک عوام کو شکست دے کرکامیابی اپنے سر باندھ لینے والے یہ کھیل کھیلتے رہیں گے،اس تحریک عدم اعتماد میں حکومت اور اپوزیشن کی ہار جیت کی کوئی اہمیت نہیں ،اس میں اصل ہار عوام کی ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں