سیاست میں کانپیں ٹانگ رہی ہیں!
تحریر :شاہد ندیم احمد
ملک کی سیاسی صورتحال بدستور الجھائو اور بے یقینی کا شکار ہے ،سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کیخلاف الزام تراشی اورکھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے ،حکومت اور اپوزیشن ایک طرف وفاقی دارالحکومت میں اپنے کارکنوں کا جمِ غفیر اکٹھا کرنے کا پروگرام بنارہی ہے تو دوسری جانب ارکان پارلیمان کی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے ،
سیاسی جماعتوں کے قائدین انجام سے بے نیاز ایک دوسرے کے خلاف تمام تر حربے استعمال کرنے کیلئے تلے بیٹھے ہیں ، ملک کے سیاسی حالات دن بدن جمہوریت کے زوال کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں،اگر حالات واقعی اس نہج پر چلے گئے تو پھرکسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔اس میں شک نہیں کہ سیاست جمہوریت کے ساتھ ہی ہوتی ہے ،اگر جمہوریت نہیں رہے گی تو پھر اقتدار بھی سیاسی قیادت کے پاس نہیں رہے گا ،
حکو مت اور اپوزیشن اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس تصادم میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیںآئے گا ،اس کے باوجود دونوںدست گریباں ہیں اور ایک دوسرے کو گرانے کیلئے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں، اس کے نتیجے میں دونوں ہی گرسکتے ہیں ،مگر اس کی دونوں کو کوئی پروانہیں ہے، کاش سیاسی قیادت نے جمہوریت کو واقعی مضبوط بنانے اوراداروں کا وقار برقرار رکھنے کی کوششیں کی ہوتی تو آج ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا ،مگر سیاسی قیادت نے اپنی غلطیوں سے نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپوزیشن قیادت پہلے دن سے حکومت گرانے کے ایجنڈے پر گامزن رہی ہے ،اپوزیشن پہلے حکومت کے خلاف احتجاج کر تی رہی اور اب تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے ، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا اور احتجاج کرنا اپوزیشن کاپورا حق ہے ،مگر حکومت گرانے کیلئے ہارس ٹریڈنگ کرنا کسی طور پردرست نہیں ہے،اپوزیشن جماعتیں ماضی میں حصول اقتدار کیلئے ہارس ٹریڈنگ کرتی رہی ہیں
اور آج بھی کررہی ہیں ،اپوزیشن نے کل ہارس ٹریڈنگ کیلئے چھانگا مانگا اور مری کو استعمال کیا،آج اسلام آبادسندھ ہائوس استعمال کیاجا رہا ہے۔یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کیلئے ارکان پارلیمان کی خرید فروخت کا بازار لگا رکھاہے ،اس سے پہلے اپوزیشن انکاری رہی ،مگر میڈیا جب دس سے بارہ ایم این ایز کو سامنے لے آیا تو اب طرح طرح کی تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں،
پی ٹی آئی ایم این ایز کا اسلام آباد سندھ ہاوس میں سیف کسٹڈی میں ہونا،اس بات کا ثبوت ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے،اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے سیاستدان جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کر رہے ہیں،اس کلچر نے ہی پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط نہیں ہونے دیا ہے،ماضی میں ہونے والے ماورا ئے آئین اقدامات کے وقت یہی جواز فراہم کیا جاتا رہا ہے کہ سیاستدان ملک چلانے کے اہل نہیں،
آج بھی وہی صورتحال بنتی جارہی ہے۔یہ بات عام طور پردرست کہی جاتی ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے ، لیکن اگر جمہوریت کے علمبردار ہی جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتارنے پر تلے ہوں تو پھر آمریت آنے سے کون روک سکتا ہے ؟ پا کستان میں آمریت لانے میں سیاستدان ہی ذمہ دار رہے ہیں ،سیاستدان ماضی سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں،انہیں جمہوریت اور عوام کی کوئی پرواہ نہیں
،انہیں حصول اقتدار سے غرض ہے ،لیکن ان کی یہی غرض انہیںآمریت کی گہری کھائی میں دھکیل سکتی ہے ،اس کا اشارہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے پہلے ہی دے دیا ہے کہ حالات اس نہج پر مت لے کر جائیں کہ اگلے دس برس تک بحالی جمہوریت کے لیے کوششیں کرنا پڑے،تاہم اس وقت اپوزیشن حصول اقتدار کے نشے میں بدمست کچھ بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہے ۔اس وقت ملک میں سیاسی انتشار کم ہونے کی بجائے بڑھتا جارہا ہے،
اگر اپوزیشن اور حکومت دونوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل نہ کی تو پھر جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے،تاہم مقتدر قوتوں نے اپوزیشن کو غیر جانبدار رہنے کا یقین دلایا ہے ،یہ ساری اچھل کود اسی یقین دہانی کی بنیاد پر ہورہی ہے،لیکن اس غیر جانبداری کو وزیر اعظم نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے
جانور کا خاصہ بتایا ہے،یار لوگ اسے عمران خان کی بوکھلاہٹ قرار دے رہے ہیں، بوکھلاہٹ میں آدمی اپنا ہی نقصان کر بیٹھتا ہے، اس تنقید نے بھی انہیں مشکل میں ڈال دیا ہے، لیکن جنہیں اْمید ہے کہ کامیابی ان کے قدم چومنے والی ہے، کانپیں اُن کی بھی ٹانگ رہی ہیں