عمران خان کی کارکردگی اور تحریک ِ عدم اعتماد 30

ہم سب لٹیرے ہیں؟

ہم سب لٹیرے ہیں؟

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

صبح کے وقت پٹرول پمپ کے اردگرد بڑا ہجوم تھا بہت سارے موٹرسائیکل سوار درجنوںگاڑیوںوالے حیران، پریشان تھے رنگ برنے کپڑوں، سکول یونیفارم میں ملبوس طلبہ طالبات کے چہروںپرپریشانی صاف دکھائی دے رہے تھی کہ سکول ٹائم نکلاجارہاہے اور پٹرول پمپ والے پٹرول فروخت کرنے سے انکاری تھی دفاترجانے والے ملازمت پیشۃ خواتین و حضرات، جاب کے لئے انٹرویو دینے کے لئے گھرسے تیار ہوکر آنے والے پٹرول پمپ پر آکرٹھس ہوکررہ گئے تھے ایک صاحب نے دوسرے سے پوچھا بھئی

یہاں میلہ کیوں لگاہوا ہے وہ نہ جانے کب سے جلابھنا کھڑا تھک گیا تھا ترنت بولا پٹرول پمپ والوںکے بڑوںکے ختم پر آیا ہوا ہوں حکومت نے پٹرول کل مہنگاکرنے کااعلان کیاہے ان کم بختوںنے آج سے فروخت بندکردی ہے دولت کی ہوس ہرحیزپرغالب آگئی ہے کسی کو عوام کی پریشانی کااحساس نہیں

۔۔دوسرا بولا صرف پٹرول پمپ والے پر ہی موقوف نہیں ہرشخص کاایک دوسرے کے ساتھ ایسا ہی رویہ ہے فروٹ خریدو تو گھر آکردیکھو تو آدھا گندہ اور گلاسڑنکلتاہے دکاندار ہویا ٹھیلے والا وہ آپ کی نظربچاکر ضرور کام دکھاجاتاہے۔’’ہاں یار ایک اور بولا پورے شہر میں ایک پائو دودھ خالص ملنامحال ہے
’’قصائی،مستری ،مزدور کس کی کا رونا روتے پھریں ایک بوڑھے نے لقمہ دیا یہاںتو آوے کا آوے بگڑا ہواہے’’ ہم خوددرست نہیں ہوتے ایک اور نے دل کے پھپھولے جلاتے ہوئے بڑی یاسیت سے کہا حکمرانوںکی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو مدینہ کی ریاست بناڈالیں کتنے بے وقوف ہیں
’’واقعی خودفریبی سی خودفریبی ہے ۔۔۔یہ سب اپنی جگہ ہمارے معاشرے میں ایک معمول کی بات ہے بلاشبہ یہاںتو آوے کا آوے بگڑا ہواہے ہرشخص دوسرے کی اصلاح کر ناچاہتاہے ہمیں دوسروںکی بڑی فکرہے

اور خود آلائشوںمیں گم رہنا اپنا کمال خیال کرتے ہیں ایک طرف عوام کی بے بسی اور بااختیارلوگوںکی بے حسی کی سینکڑوںمثالیں پیش کی جاسکتی ہیں دوسری طرف اسی جیتی جاگتی دنیامیں کچھ اجلے ،روشن ضمیروںکی جگمگ جگمگ مثالیں بھی موجودہیں یہ اجلے لوگ جن کا تعلق کسی بھی ملک اور کسی بھی مذہب سے ہوسکتاہے یقین جانئے یہی انسانیت کا حسن کہلانے کے قابل ہیںان کے متعلق پڑھیں یا سنیں تو اپنے بدبودارمعاشرے سے گھن آنے لگتی ہیں اب کریں کیااسی ماحول میں رہنا اور ایسے لوگوںکے درمیان ہی گذارا کرنا ہے کہ اس معاشرے میںاورکوئی آپشن ہی نہیں ہے
سوڈان کے ایک شخص نے ایک مضمون میں اس نے اپنے ساتھ پیش آنیوالے دو دلچسپ واقعات بیان کئے ہیں۔ پہلا واقعہ میں وہ لکھتا ہے مجھے آئرلینڈ میں میڈیکل کا امتحان دینا تھا. امتحان فیس 309 ڈالر تھی۔ میرے پاس کھلی رقم (ریزگاری) نہیں تھی، اس لیے میں نے 310 ڈالر ادا کر دیے۔ اہم بات یہ کہ میں امتحان میں بیٹھا، امتحان بھی دے دیا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد سوڈان واپس آ گیا

۔ ایک دن اچانک آئرلینڈ سے میرے پاس ایک خط آیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ “آپ نے امتحان کی فیس ادا کرتے وقت غلطی سے 309 کی جگہ 310 ڈالر جمع کر دئیے تھے۔ ایک ڈالر کا چیک آپ کو بھیجا جارہا ہے، کیوں کہ ہم اپنے حق سے زیادہ نہیں لیتے” حالانکہ یہ بات وہ بھی جانتے تھے کہ لفافے اور ٹکٹ پر ایک ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے ہوں گے!!
یہ دوسرا واقعہ تو کمال کا ہے کاش یہ بوڑھی عورت مجھے کہیں مل جائے میں ادب سے روزانہ اس کے ہاتھ چوم کر دن کاآغازکروں سوڈانی کہتاہے میں کالج اور اپنی رہائش کے درمیان جس راستے سے میں گزرتا تھا،

اس راستے میں ایک عورت کی دوکان تھی جس سے میں 18 پینس میں کاکاؤ کا ایک ڈبہ خریدتا تھا۔ ایک دن دیکھا کہ اس نے اسی کاکاؤ کا ایک ڈبہ اور رکھ رکھا ہے جس پر قیمت 20 پینس لکھی ہوئی ہے۔ مجھے حیرت ہوئی اور اس سے پوچھا کہ کیا دونوں ڈبوں کی نوعیت (کوالٹی) میں کچھ فرق ہے کیا؟
اس نے کہا : نہیں، دونوں کی کوالٹی یکساں ہے۔
میں نے پوچھا کہ پھر قیمت کا یہ فرق کیوںہے؟

اس نے سادگی سے جواب دیا کہ نائیجیریا، جہاں سے یہ کاکاؤ ہمارے ملک میں آتا ہے، اس کے ساتھ کچھ مسائل پیدا ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے قیمت میں اچھال آگیا ہے۔ زیادہ قیمت والا مال نیا ہے، اسے ہم 20 کا بیچ رہے ہیں اور کم قیمت والا پہلے کا ہے، اسے ہم 18 کا پیچ رہے ہیں۔
میں نے کہا، پھر تو 18 والا ہی خریدیں گے جب تک یہ ختم نہ ہوجائے؟ 20 والا تو اس کے بعد ہی کوئی خریدے گا۔
اس نے کہا: ہاں، یہ مجھے معلوم ہے۔زیادہ ترگاہک کم قیمت والی چیزہی خریدناپسندکرتے ہیں جبکہ کوالٹی توایک جیسی ہےمیں نے مشورہ دیا کہ دونوں ڈبوں کو مکس کر دو اور 20 کا ہی بیچ دو۔ کسی کے لئے قیمت کا یہ فرق جاننا مشکل ہوگا۔اس نے میرے کان میں پھسپھساتے ہوئے کہا : کیا تم کوئی لٹیرے ہو(are you a robber) ؟؟جومجھے ایسا مشورہ دے رہے ہو؟مجھے اس کا یہ جواب بڑا عجیب لگا اور میں آگے بڑھ گیا۔

لیکن یہ سوال میرے ذہن میں بہت سے سوال چھوڑ گیا آج بھی اس کاانداز اس کا لہجہ میری نگاہوںمیں گھوم گھوم جاتاہے اور اس کا سوال آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ کیا تم کوئی لٹیرے ہو ؟ اس حساب سے تو میرے معاشرے کا ہرفرد لٹیراہے جو جتنی لوٹ مارکرسکتاہے ضرور کرنے کی کوشش کرتاہے

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بوڑھی عورت نے جس اخلاق کا مظاہرہ کیا وہ کون سا اخلاق ہے؟ دراصل یہ ہمارا اخلاق ہونا چاہیے تھا۔ یہ ہمارے دین اسلام کا اخلاق ہے۔ یہ وہ اخلاق ہے جو ہمارے نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایا تھا، لیکن؟
ذرا دل پرہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتائیں ہم کہاں کھڑے ہیں کیا ہم لٹیرے نہیںہیں ؟!؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں