ریکوڈک منصوبے پر کا میابی کے دعوئے !
تحریر :شاہد ندیم احمد
دنیا بھر کی کچھ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے غیر ترقی یافتہ ممالک میں لوٹ کھسوٹ کا ایک نیا اور انوکھا طریقہ ڈھونڈھ نکالا ہے کہ پہلے ایک ایسا معاہدہ تیار کرو جو مقامی لوگوں کی فوری سمجھ نہ آئے بعدازاں معاہدے پر دستخط کرانے کیلئے کرپٹ سیاسی اشرافیہ اور افسر شاہی کو رشوتیں دو ،اگر معاہدہ کبھی سمجھ میں آ جائے اور منسوخ کر دیاجائے تو پھر اس کے خلاف ورلڈ بینک کے ’مصالحتی ٹربیونل‘
میں مقدمہ درج کر کے خرچ ہونے والی رقم سے دسیوں گنا زیادہ ہرجانہ مانگ لیاجائے، یہ سب کچھ پاکستان کے ساتھ ریکوڈک پراجیکٹ پر کیا گیا، پاکستان نے ریکوڈک پراجیکٹ منسوخ کیاتو یتھیان کمپنی کیس انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ کے پاس لے گئی ،جہاں ایک بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل نے پاکستان پر 6 بلین ڈالر کا جرمانہ ہی عائد نہیں کیا ،بلکہ چار بلین ڈالر سے زائد ہرجانے کے علاوہ ایک اعشاریہ 7 بلین ڈالر سود ادا کرنے کا بھی حکم دیا جو 11 ارب ڈالر بنتا ہے،
پاکستان نے دس سال قانونی جنگ لڑی اور نہ صرف جرمانہ ختم کرانے میں کا میاب ہو گیا، بلکہ اس سلسلہ میں کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے درمیان معاہدہ بھی طے پا گیا ہے،یہ کمپنی ریکوڈکمنصوبے پر 8ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔
اس میں شک نہیں کہ ریکوڈک کیس میں کامیابی کے ساتھ ریکوڈک منصوبہ کا دوبارہ طے پا جانا حوصلہ افزا ہے ،تاہم ٖضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی بھی معاہدہ کرتے وقت تمام اعدادو شمار کا درست تخمینہ لگایا جانا چاہئے،تاکہ ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ جن کا سامنا ریکوڈک کے پہلے معاہدے کے حوالے سے کرنا پڑا ہے ،
حکومت کے دعوے کے مطابق نئے معاہدے کے تحت بیرک گولڈ نامی کمپنی ریکوڈک منصوبے کو پاکستانی اداروں کے ساتھ شراکت میں بحال کرے گی،اس معاہدے کے تحت کمپنی اور پاکستانی اداروں کا حصہ نصف ہوگا ،جبکہ پاکستان کے نصف میں سے 25 فیصد بلوچستان کو دیا جائے گا،اس منصوبے پر وزیر خزانہ کا کہنا ہے
کہ اس کے ذریعے نہ صرف 8ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہونگی، بلکہ یہ منصوبہ پاکستان کو قرضوں سے آزاد کرانے کا باعث بھی بنے گا،جبکہ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ بلوچستان کو دنیا بھر سے جوڑنے اور اس کی تعمیر و ترقی کا باعث بنے گا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستانی حکمران جب بھی کوئی نیا معاہدہ کرتے ہیں تواس کے ساتھ اعلانات بھی بہت اچھے کیے جاتے ہیں،
اس ملک میں موٹروے بننے سے لے کر سی پیک تک اور ریکوڈک کے سابق معاہدے سے لے کر نئے معاہدے تک سب باتیں ایک جیسی کہی جارہی ہیں ،لیکن کل کی طرح آج بھی عوام حقائق جاننے سے محروم ہی رہتے ہیں ریکوڈک کے پہلے معاہدے کی تفصیلات سے عوام واقف نہیں تھے ،پا کستانی عوام ریکو ڈک کے دوسرے معاہدے کی تفصیلات سے بھی آگاہ نہیں ہیں،اس نئے معاہدے کے حوالے سے کہا جارہا ہے
کہ کینیڈین کمپنی اور پاکستانی کمپنیاں آدھے آدھے حصے کی حقدار ہوں گی، لیکن ان ذخائر کی مالیت کا تعین کون کرے گا،کس شرح سے حصوں کا تعین کیاجائے گا ،کس بنیاد پر نصف کی تقسیم ہوگی اورکون سے شعبوں میں کن لوگوں کو 8 ہزار ملازمتیں دی جائیں گی؟ اس حوالے سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی ہے۔
اس ملک میں اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہاں دعویٰ کرنے اور سہرا سجانے کیلئے سب تیار رہتے ہیں ،مگر ملازمتوں کی بندر بانٹ سے لے کر آمدن کے غائب ہو نے تک کی ذمہ داری لینے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ہے ،اس ملک میںجس طرح سی پیک معاہدے کی شرائط سے قوم کو بے خبر رکھا گیا ، اس طرح ہی ریکو ڈک کے نئے معاہدے سے عوام کو بے خبر رکھاجارہا ہے،یہ عوامی حکومت کے دعوئیدار نہ جانے
کیوں حکومتی معاملات میں عوام کو بے خبر رکھنا ہی پسند کرتے ہیں،سی پیک سے لے کر ریکوڈک تک ملازمتوں اور آمدن کا معاملہ نہیں ،بلکہ قومی وسائل اوراس کی آمدن سے آگاہی ہے ، یہ کتنا بڑاظلم ہے کہ جس کے وسائل ہیں، وہی اس کے سودے سے لاعلم ہوتے ہیں، یہ کمزوری عوام کی اپنی بھی ہے کہ وہ اپنے
قیمتی وسائل سے لاعلم ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کا سونا، تانبہ اور قدرتی وسائل کس قیمت پر باہرفروخت کیے جارہے ہیں۔
ہر دور اقتدار میں حکمران کہتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں کہ عوام کے فیصلے عوام کی منشاء ومرضی کے بغیر نہیں کیے جائیں گے ،مگر تمام فیصلے عوام کی بجائے اپنی مرضی اور مفاد کے پیش نظر کیے جاتے ہیں ،عوام کل بھی لا علم رہے اور آج بھی نئے معاہدئوں کی مبارک بادوصول کرتے ہوئے انجان ہیں،یہ اتنے بڑے بڑے سودے عوام کی مرضی جانے بغیر کیسے ہوجاتے ہیں، یہ کہنا بے کار ہے
کہ معاملات پارلیمنٹ میں لائے جانے چاہئے، وہاں تو اس قدر برا حال ہے کہ چند ٹکوں پر عوام کے نام نہاد نمائندے اپنے ضمیر فروخت کررہے ہیں،انہیں کیا خبر ہو گی کہ اس ملک کے پاس کتنے وسائل ہیں اور کہاں کیسے فروخت ہورہے ہیں،اس ملک سے جب سارا سونا اور تانبہ نکال لیا جائے گا
تو اس کے بعد پاکستان کے پاس چند ٹکے ہوں گے، ان میں سے بھی 25 فیصد بلوچستان عوام کے نام پر خورد برد ہوچکے ہوں گے اور باقی ترقی کے نام پر ٹھکانے لگ چکے ہوں گے، پا کستان کس جانب گامزن ہے ،اس وقت دنیا کے سمجھدار ممالک اپنے وسائل محفوظ کرنے میں لگے ہیں،جبکہ ہمارے ہاں قومی وسائل فرخت کرکے بڑے فخر سے کامیابی کے دعوئے کیے جارہیں۔