سقوط ِ ڈھاکہ سے بڑا سانحہ
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
ایک صدی قبل جنوبی ایشیاء کے مسلمانوںنے ایک الگ وطن کاخواب دیکھا یہ خواب لاکھوںقربانیاں دے کر شرمندہ ٔ تعبیرہوا پھر ہم میں سے کچھ لوگوںنے اس خواب ِ دل پذیرکی الگ الگ تعبیر بنالی کسی کے لئے پاکستان شہرت کاسبب بنا ،کچھ اسے دولت کا ذریعہ بنا لیا کچھ نے اس وطن کو سیاست سیاست کا کھیل بنالیا جو اس ملک کے نظریاتی مخالفین تھے انہوں نے انتقام لینے کے لئے جمہوریت کو یرغمال بنالیا
وہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت وسائل پر قابض ہوتے چلے گئے یعنی منزل انہیں ملی جو شریک ِ سفر نہ تھے ان لوگوں نے اس مملکت ِ خدادادکو اتنا لوٹا کہ ان کے پیٹ پھٹنے کے قریب ہیں پھر بھی وہ اسے گدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں اور ان کی ہوس ختم ہی نہیں ہورہی۔ کسی کے لئے یہ ملک محرومیوں کی لمبی داستان ہے جوسسکتے ارمانوںکے ساتھ زندگی کے دن پورے کررہے ہیں جن پر زندگی تنگ کردی گئی ہے
۔ اس ملک نے ہرکسی کو کچھ نہ کچھ ضرور عطا کیاہے لیکن پاکستان کو کسی نے کچھ نہیں دیا بلکہ اس کیلئے کبھی سوچا تک نہیں یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے یہ جو بڑے بڑے افسر،سرمایہ دار،جاگیردار،وزیر مشیر ہمیں نظر آتے ہیں جن کی گردنیں اتنی موٹی ہیں کہ کوشش کے باوجود مڑنہیں پاتیں پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی ہندو بنئے سے محنت مزدوری کی اجرت لینے کے لئے گھنٹوں قطارمیں کھڑے رہتے الحمد اللہ آج ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں یہ آزادی ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دی
یہ ملک ہمیں کسی نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا اس کے لئے ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں دی تھیں ہزاروں مائوں،بہنوں بیٹیوں نے اس پاک دھرتی کے حصول کیلئے اپنی عصمت قربان کردی،سینکڑوں مسلمان لڑکیوں کو ہندوئوں،سکھوں نے اپنی رکھیل بنا ڈالا جن میںدرجنوں آ ج بھی زندہ ہوں گی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا اتنا بڑا جرم بن گیا تھا ظالموں نے بے شمار مائوں کے جگر گوشوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ کررکھ دیا ۔ یہ پاکھنڈی دانشورجو آج ایکتا کے نعرے لگاتے ہیں
اس وقت کہاں تھے جب جنوبی ایشیاء کے مسلمانوںپر اتنے ظلم ہوئے کہ امریتا پریتم جیسے شاعرہ بھی خون کے آنسو روتے دہائیاں دینے لگی اپنے آپ کو پنجابی کہنے والے سکھوں نے پنجابی قوم پر ہی سب سے زیادہ ظلم کے پہاڑ توڑڈالے انہوںنے ماں بولی کا بھی خیال نہ کیا کاش انڈیا سے پاکستان آنے والی اس خون میں ڈوبی ریل گاڑی کو قومی عجائب گھر میں رکھا جاتا جس میں کٹے پھٹے اپنے ہی لہو میں نہائے
زخمیوں، بے گناہ مسلمانوںکی لاشوں اور زخموں سے چیختی نوجوان لڑکیوں، مائوں سے چھاتی سے چمٹے معصوم بچوں کی لاشیں تھیں جن کا کوئی جرم نہ تھا جن کو ناحق ماردیا گیا قومی المیہ یہ ہے کہ جن قوتوںنے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا وہ سازش، دھونس اور جبر سے اس ملک کے وارث بن بیٹھے وہ آج بھی ہم سے پاکستان بنانے کے جرم کا انتقام لے رہے ہیں بس انداز بدل گیا ان کا ذہن آج بھی 1947ء جیساہے
یہ نصف صدی پہلے کی بات ہے جو لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والی دنیا کی پہلی مملکت ِخداداد دو لخت ہوگئی اس عزیمت،ذلت اور شکست نے سقوطِ ِغرناظہ اور سقوط ِ بغداد کی یادتازہ کردی اوروطن سے محبت کرنے والوںکورلاکررکھ دیا کچھ لوگوںکادعویٰ ہے کہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرماتھے یہ فوجی شکست نہیں۔۔وجہ کچھ بھی ہو دل نہیں مانتا شکست شکست ہوتی ہے
سیاسی ہویا عسکری حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن کی سازش کامیاب رہی اور پاکستان دوٹکرے ہوگیا اور اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندراگاندھی نے بڑے غرور سے کہا تھا ہم نے دوقومی نظریہ سمندرمیں غرق کردیالیکن یہ اس کی خام خیالی تھی مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کے باوجود دوقومی نظریہ پوری آب وتاب سے زندہ ہے اس کا بین ثبوت بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات ہیں لیکن پاکستانی قوم نے اس عظیم سانحہ سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا بلکہ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا
کہ مفادپرست سیاست دانوںنے محض اقتدار کے حصول کے لئے سیاست اور جمہوریت کواس مقام پر لاکھڑا کیا کہ اب پاکستان کے نظریاتی مخالفین اور حضرت قائدِ اعظم ؒ کے بدترین مدِ مقابل کو اس قوم کا ہیرو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور آج مسلم لیگی کارکن ان کے لئے زندہ باد کے نعرے مارتے دکھائی دیتے ہیں یہ سب کچھ دیکھ کریقینا عالم ِ ارواح میں علامہ اقبالؒ اور قائدِ اعظم ؒ کی روحیں تڑپ تڑپ جاتی ہوں گی
لیکن ان نام نہادمسلم لیگی رہنمائوںکو شرم تک نہیں آتی دیکھا جائے تو یہ سقوط ِ مشرقی پاکستان سے بڑا سانحہ ہے لیکن کسی کوبھی اس کا مطلق احساس تک نہیں۔پاکستان کے نظریاتی مخالفین1947ء میں توحضرت قائدِ اعظم ؒ کو شکست نہ دے سکے لیکن مسلم لیگی کارکن اندھی تقلیدکے آگے ڈھیرہوگئے
انہیں یہ بھی احساس نہیں کہ پاکستان کے نظریاتی مخالفین بانگ ِ دہل کبھی یوم ِپاکستان منانے سے انکارکردیتے ہیں تو کبھی آزادی مارچ کے نام احتجاج جلسے،جلوس اور دھرنے دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے اقتدارکی ہوس میں مبتلا سیاستدانوں نے پاکستانی قوم کا سوچ، نظریہ اوردوقومی نظرئیے کا عقیدہ بدل کررکھ دیا ہے
پاکستان کے دشمن یہی چاہتے تھے مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا نظریہ پاکستان سے صریحاً غداری ہے اس کا مطلب ہے ا ب اس ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوںکو انتہائی خوفناک خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔