سیاسی تصادم میں آمریت کی آہٹ ! 84

سیاست کاسر پرائز کارڈ !

سیاست کاسر پرائز کارڈ !

تحریر :شاہد ندیم احمد

قومی اسمبلی کا اجلاس قریب آتے ہی حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی رسہ کشی میں زیادہ سنسنی خیز آگئی ہے، وزیراعظم عمران خان نے کسی بھی صورت مستعفی نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آخری دم تک اپوزیشن کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا اور تحریک اعدم اعتماد سے قبل حیران کن سرپرائز دوں گا،

حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ملاقاتوں اور یقین دہانیوں کے سلسلے جاری ہیں، دونوں طرف سے کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں، اس وقت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم اپنے بعض وزرا اور مشیروں سے مایوس ہو گئے ہیں،اس لیے کسی کو بھی نہیں بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس کون سا آخری سر پرائز کارڈ ہے کہ جس کو سامنے لانے پر ساری بازی پلٹ دیں گے۔
اس وقت ملکی سیاست میں جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے ،سیاست کے کھیل کو دیکھتے ہوئے ہر پا کستانی پر یشان ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی کہ حکومت مخالفین کو منہ کی کھانا پڑے گی،حکومت رہے گی کہ چلی جائے گی ،سیاسی لوگ اور ان ہر کارے جتنی مرضی باتیںکرتے رہیں ،جتنے مرضی بیانئے بنائیں،

سیاسی حقائق سب کے سامنے ہیں اور عوام کی کھلی آنکھیں سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں،عوام تحریک عدم اعتماد کے پس پردہ کار فرماعوامل کو بھی دیکھ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں برپا ہونے والے انتشار سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ،عوام جانتے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد کے تلوں میں اتنا تیل نہیں ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب بناسکے ،اگر تحریک اعد اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو اس میں اپوزیشن کا کوئی کمال نہیں ،بلکہ مقتدراء کاسارا بنا بنایا کھیل ہے کہ جس پر اپوزیشن کامیابی کی دعوئیدار ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہر دور اقتدار میں میں حکمرانوں کو اُن کے اپنے ہی حواریوں اور صلاح کاروں نے مروایا ہے ،وزیر اعظم عمران خان کو بھی ان کے صلاح کاروں نے کبھی کوئی اچھی صلاح نہیں دی ہے ،لیکن موجودہ ایشو پر تو لگتا ہے کہ دھکا دینے والے مشورے دیئے جاتے رہے ہیں، یہ ان مشوروں کا نتیجہ ہے

کہ حکومتی ناراض ارکان کی ناراضی ناقابل واپسی حد تک پہنچ گئی ہے، یہ کونسا طریقہ تھا کہ اپنی ہی جماعت کے ناراض ارکان کو راضی کرنے کے بجائے ان کو ذلیل کیا جائے ،انہیں گھوڑے اور خچروں سے تشبیہ دی جائے،انہیں بکائو مال کہا جائے اورپھر ان کی قیام گاہ سندھ ہائوس پر ہلہ بول دیا جائے ،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسے غیر دانشمندانہ اور بچگانہ مشورے کون دیے رہا ہے اورعمران خان ایسے مشوروں پر عمل کرتے جا رہے ہیں،اس وقت وزیر اعظم کیلئے جو مشکلات بڑھی ہیں ،

یہ ان ہی غیر دانشمندانہ صلاح کاروں کے مشوروں اور ان پر عمل کرنے کا شاخسانہ ہے۔اس وقت بدلتی سیاسی صورت حال حکومت کیلئے بہتر نظرنہیں آرہی ہے،ناراض ارکان میں سے ایک بھی واپس آیا نہ آئندہ واپس آنے کا ارادہ رکھتاہے،اپوزیشن نے پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کا وعدہ کرلیا ہے

اور اس کے ضامن آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن ہیں، دوسری طرف ایم کیو ایم نے بھی پیپلز پارٹی سے جو معاہدات کیے ہیں، ان کے ضامن میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن ہیں، اپوزیشن نے کچھ دو اور سب کچھ لو کے اصول پر سب کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے، اگر آج کل میں اتحادی جماعتیں حکومت سے

علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں تو شاید پھر تحریک عدم اعتماد کے بجائے تحریک اعتماد کی ضرورت پڑ جائے اور وزیر اعظم کو ہائوس سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑے ،جبکہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جنگ تو ابھی شروع ہوئی ہے، اپوزیشن کچھ بھی کرلے، کسی صورت کامیاب نہیں ہو گی۔یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ہے ،سیاسی حالات کسی وقت کسی بھی کروٹ بدل سکتے ہیں ،

مگر اس کیلئے مقتدرقوتوں کی سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے ، اگر اُن کی سوچ بدلی تو اشارے بھی بدل جائیں گے ، اس حوالے سے پس پردہ جہاں ملاقاتیں جاری ہیں ،وہیںمقتدرین پر زور بھی دیا جارہا ہے کہ ملک میں ہونے والی خراب صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے دونوں متحارب سیاسی گروپوں کو ایک پیج پر لانے کا احتمام کیا جائے، اس وقت ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خوفناک حد تک خراب ہوچکی ہے،

اگر کوئی خونریزی یا تصادم ہوا تو اس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتاہے ،اس لیے ذاتی مفادات کی بجائے ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا درمیانی راستہ نکالنا ہو گا کہ جس سے معاملات مزید اُلجھنے کی بجائے سلجھ جائیںاورجمہوریت کی گاڑی کسی روکاوٹ کے بغیر یونہی چلتی رہے ،ورنہ سر پرائز دینے کے چکر میں سب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور کوئی تیسرا اپنا سرپرائز کارڈ کھیل جائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں