48

رمضان المبارک کی خیر و برکات سے محروم کیوں ہیں ہم مسلمان؟

رمضان المبارک کی خیر و برکات سے محروم کیوں ہیں ہم مسلمان؟

نقاش نائطی
۔ +966562677707

رمضان المبارک کی ڈھیر ساری مبارکباد اپنے تمام قارئین و غیر قارئین مسلمانوں کے لئے۔اور دعا اس مالک دو جہاں سے کہ ہم مسلمانوں کی لغزشوں کوتاہیوں کو صرف نظر کرتے ہوئے، ہمیں رمضان المبارک کے اصل خیر و برکات سے بحرور کردے اور اس رمضان المبارک کو ہماری دنیا و آخرت کی سرخ روئی کے وسیلہ بنادت رمضان کا انتظار کرنے اور اسے خوش آمدید کہنے کا ہم مومنوں کو حکم دیا گیا ہے

تاکہ سال بھر کی ہماری دنیوی مصروفیات، اپنے دینی اعمال، بے توجہی پر نظر ثانی کی جاسکے اور اپنے اللہ کے لئے رمضان میں بھوکے پیاسے رہتے اور شب کہ ساعتوں میں قیام اللیل و ذکر واذکاراستغفار دعا و مناجات سے اپنے رب کو راضی کیا جاسکے، لیکن موجودہ زمانے میں ہم مسلمان بالکل الٹ کئے جارہے ہیں۔ رمضان کا استقبال تو ہم رسمی استقبال رمضان تقاریب سے، ایسے تیسے کرلیتے ہیں

علماء حضرات کی تقاریر بھی سن لیتے ہیں۔ رمضان سحور افطار کی تیاریاں بھی خوب کرلیتے ہیں۔مختلف مرغن غذا کھانے پکوان ، جس کی تیاری ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی، رمضان بازاروں میں دستیاب رہنےکی وجہ، مختلف اقسام کے مرغن کھانے،ہر خاص و عام کے افطار دسترخوان کی زینت بن جایا کرتی ہیں۔

زمانے کی جدت پسندی و گھر خاندان نساء تساہلی کی وجہ سے صحت عامہ آگہی یا ھیلتھ کونشیز کے بہانے کے ساتھ، معاشرے میں معروف جو ناشتے کے مختلف الذوق پکوان سے ماورا، ہلکے پھلکے چاء بسکٹ ٹوسٹ سے گزارا کررہے تھے اب صحت کی فکر کو اللہ کے بھروسے چھوڑے رمضان المبارک کی خیر و برکات سمیٹنے، بازاروں کے رمضان اسٹالوں پر سجے، نت نئے کھانے و مختلف اقسام پکوان سے لطف اندوز ہونا انتہائی ضروری سمجھا جارہا ہے۔ صحت عامہ کا خیال رکھنے کے بہانے،

تیل سے تلی اشیاء اجتناب کرنے والی نساء بھی، اپنی تساہلی چھپا گھر میں مختلف انواع اقسام کے کھانے پکانے کے بوجھ سے بچتی جو پائی جاتی ہیں۔حفظان صحت کا خیال بالائے طاق رکھتے ہوئے، صرف منافع کمانے تیار کر بیچی جانے والی وہی مضر صحت بازاری اشیاء دھڑلے سے نہ صرف خریدی جارہی ہیں بلکہ اسے کھانے سے پرہیز کرنے والے بھی، بڑے شوق سے رمضان کی ضروریات کے نام کھائے جارہے ہیں

۔مضر صحت اجی نہ موتو ہوں کہ مگی کیوب کی کثرت استعمال سے لذیذ بنائی گئی پکوان، ایسی مضر صحت اشیاء پرہیز کرنے والیوں کو بھی،ان بازاری دلکش اشیاء، ماورائیت اختیارکرنے کا موقع نہیں دیتی ہیں

اب تو کچھ معقول طلب پر،اسے گھر دروازے تک پہنچانے کی سہولیات نے تو، موجودہ مہذب نساء کے وارے نیارے کر دیئے ہیں۔ انکے اپنے رخ ثانی کس کرب و تکلیف میں ہر ماہ پیسے، کیسے بھیجتے ہیں اس سے قطع نظر،اپنی تساہلی کو چھپا، زمانے کی ترقی پزیری کی دہائی دیتے ہوئے، ہر وہ تعئش پسندی کو پورا کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ رمضان افطار پر،گھر کے روزہ دار بچوں کی دلجوئی کےلئے،

مختلف پکوان ضروری جو ماضی قریب تک سمجھے جاتے تھے اور مختلف انواع پکوان سے بچنے کے لئے ایک ہی پکوان کچھ زیادہ پکواتے، کچھ اڑوس پڑوس رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہوئے، مختلف اقسام کے پکوان اپنے افطار دستر خوان پر پایا کرتے تھے۔ خود کی محنت سے رشتہ داری نبھایا کرتے تھے،

اب تو کسی ہوٹل یا کسی گھرگریستن محنت کش سے آرڈر کر ڈھیر سارا پکوان پکوائے، رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہوئے، ایک طرف اپنی خوشحالی درشائی جاتی ہے تو ذرا تنگدست عزت دار گھرانوں کے لئے، ایک صبر آزما موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ چار رشتہ داروں کا لیکر کھایا ہے تو قرض اتارنے ایسے ویسے، کیسے کیسے کچھ نہیں کچھ پکاکردینا پڑیگا۔گویا وہ آپسی میل ملاپ محبت الفت بھائی چارگی والی فضا قائم کرتے حسن معاشرت کے اچھے اسلوب کو، بعد کورونا،موجودہ معاشی طور تنگدست ماحول کے لئے ایک بوجھ بنایا جارہا ہے۔

خلیج عرب کے ریگزاروں میں مصروف معاش ہم نے بے شمار ایسے مسلمان روزے داروں کو بھی دیکھا ہے کہ بارہ بجے شب تک مصرف معاش تھکے ہارے بستروں پر دراز محت کش، سنت سحری کی ادائیگی کے لئے باقاعدہ اذان فجر سے آدھ گھنٹہ قبل آٹھ کر اطمینان سے سحری کر لیتے ہیں اور نماز فجر و ظہر غائب الارم لگا،

سر شام آٹھ کر ڈیوٹی نبھانے چلے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ انہیں میں سے بعض سنت تراویح کا اہتمام کرتے ضرور پائے جاتے ہیں۔ گویا دن بھر بھوکے رہ روزے رکھنا اور ایکسپریس تراویج ادا کرنا ہی رمضان المبارک کے واجبات ہیں یقینا بہت سے اسلامی معاشروں میں نماز فجر اور مغرب مساجد کھچاکچ ضرور بھری رہتی ہیں۔اور آخری عشرے کی شب اکثر مساجد قیام اللیل نمازوں سے گونجا کرتی ہیں۔

اگر رمضان المبارک کے قدر منزلت للہ فاللہ گر کی گئی ہوتی تو، اس کے اثرات، بعد رمضان کچھ صفحات مصلیوں سے پرے ، ویران مساجد کے در دیوار و گنبد ہم مسلمانوں سے یوں شاکی نہ ہوتے! ہمیں یاد پڑتا ہے اس ننھے معصوم لڑکے کا نماز استسقاء کے لئے جاتے ہوئے چھتری ساتھ لیجانا اور کسی کے پوچھنے پر اس کا دیا معصوم جواب، اتنے سارے مسلمان جب بارش کے لئے ساتھ دعا مانگیں گا تو اللہ بارش ضرور دیگا اس لئے واپسی پر بارش سے بھیک نہ جاؤں اس لئے چھتری ساتھ لے لی ہے،

کیا آج کے ہم مسلمانوں کو اپنے اعمال و دعا پر اتنا کامل بھروسہ باقی رہا ہے؟ پھر اپنی اصل تڑپ سے ماورا ہمارے روزے و دعا ہمیں رمضان المبارک کی خیر و برکات سے کیوں کر محروم رکھے ہوئے ہیں؟ اور کیوں کر عالم کے ہم مسلمان اپنی کثرت تعداد باوجود اغیار کے لئے لقمہ تر بننے چلے جارہے ہیں وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں