44

سیاسی بحران کا حل قو می ڈائیلاگ !

سیاسی بحران کا حل قو می ڈائیلاگ !

تحریک انصاف حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی ہے، مگرعمران خان نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنا ترپ کا پتا ایساکھیلا ہے کہ متحدہ اپوزیشن چاروں شانے چیت ہوگئی ہے،وزیر اعظم نے اپنی ایک ہی چال سے متحدہ اپوزیشن کے سارے خواب چکنا چور کردیے ہیں، اپوزیشن سراپہ احتجاج ہے کہ غیر آئینی اقدام کیا گیا ہے ، تاہم متحدہ اپوزیشن کی جانب سے سارا واویلا بے معنی لگتا ہے کہ حکومت نے غیر آئینی اقدام اُٹھایا ہے،

کیو نکہ اپوزیشن کی جانب سے جب تمام اخلاقی اور سیاسی اقدار بلڈوز کی جا رہی ہوں تو حکومت کی طرف سے فیئر پلے کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے اپنے مقصد کے حصول میں تمام جائز و ناجائز حربے استعمال کیے ہیں ،لیکن اس کے باوجود عوام وزیر اعظم سے توقع ضرور کر رہے تھے کہ وہ خود کو دیگر سیاستدانوں کے مقابلے میں مختلف سیاست دان ثابت کریں گے

،عدم اعتماد کی صورت میں سیاسی وقار کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی عدالت میں جائیں گے،لیکن انہوں نے امریکہ سے آئے مراسلے کا بہانہ بنا کر وہی سب کچھ کیا ،جو کہ اپوزیشن کی دوسری جماعتیں کر رہی تھیں،محض ایک خط کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل، گورنر برطرف صوبائی اسمبلی کا اجلاس موخر ہر چیز معلق کردی گئی ہے، اگر عمران خان کا موقف واقعی درست ہے کہ یہ عالمی سازش ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے کی گئی تھی تو پھر حکومت کس کے دستخط سے ختم ہوئی ہے۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان جو سیاسی رسہ کشی جاری رہی ہے ،اس میں دونوں دھڑوں کی جانب سے بہت کچھ ایسا کیا گیاکہ جس سے واضح طور پر پیغام ملتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فریق ملک و عوام کے مفادات اور مسائل کو اہمیت نہیں دے رہاہے،

بلکہ یہ سب لوگ کسی بھی قیمت پر اپنے گروہی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ جن سیاسی جماعتوں کو جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے، وہ خود ہی جمہوری اقدار و روایات کے پابند نہیں ہیں اور اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے ہر عمل اور ہر اقدام کو جائز سمجھتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکمران جماعت پر اپوزیشن سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سیاسی نظام اور جمہوری اداروں کی حفاظت کے لیے مثبت کردار ادا کرے، لیکن وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے جو کچھ کیا گیا، وہ کسی بھی طرح ان کے مناصب کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھا،

ماضی میں سیاسی جماعتوں کا ایسا ہی کردار غیر جمہوری قوتوں کے اقتدار پر قابض ہونے کے لیے راستہ ہموار کرتا رہا ہے، سیاسی جماعتوں نے پچھلے چند مہینوں سے قومی منظر نامے پر ایسی ہی ہلچل پیدا کی ہوئی ہے، تاہم اس بار فوج نے ملکی مفاد میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے خود کو غیر جانبدار رکھ کر سیاسی قیادت کو پیغام دیا ہے کہ انھیں جمہوری اور سیاسی مسائل خود ہی حل کرنا ہوں گے۔
سیاسی محاذ آرائی اپنی جگہ ،مگر اس وقت ملکی حالات تقاضا کررہے ہیں کہ موجودہ ڈیڈلاک کا کوئی حل نکالا جائے، اس کے لئے ایک قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، یہ سیاسی جماعتوں کا پیدا کردہ بحران ہے اور اس بحران سے سیاسی قیادت نے ہی قوم کو نکالنا ہے،اس کا بہترین حل یہی ہے کہ نئے انتخابات کی طرف جایا جائے، اس سلسلے میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے تو اس پر بھی اتفاق رائے ہوسکتا ہے

،لیکن اس کیلئے اپنی انا کے خول سے باہر نکنا ہو گا، آج عمران خان اپوزیشن سے سوال کر رہے ہیں کہ ان کا مطالبہ نئے انتخابات کا تھا تو اس سے بھاگ کیوں رہی ہے؟ اگریہی کام پہلے ہی اتفاق رائے سے کرتے تو شاید انہیں یہ نہ کہنا پڑتا،مگر اب معاملات اتنے سیدھے نہیں رہے ہیں، بلکہ بہت پیچیدہ ہو چکے ہیں۔
اس صورت حال میںسیاسی قیادت کی آزمائش ہے ،اس آزمائش میں انہیں بھولنا نہیںچاہیے کہ آئین ہی ان کے اقتدار تک پہنچنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے، لہٰذا تمام معاملات میں آئین کی پاسداری مقدم ہونی چاہیے ،اگر سیاسی جماعتیں باہمی کشمکش کے نتیجے میں آئین اور جمہوری نظام کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیں گی

تو اس سے کسی کا کو ئی فائدہ نہیں گا ،بلکہ اُلٹاسبھی نقصان اٹھائیں گے،حکومت اور اپوزیشن نے پارلیمانی معاملات ایک بار پھر عدالت عظمیٰ میں پہنچادیے ہیں،اس باب میںعدالتِ عظمیٰ ہی رہنمائی کرے گی کہ الجھی ہوئی گتھی کو سلجھا کر ملک کو سنگین افراتفری اور انارکی کے خدشات سے کیسے بچایا جا سکتا ہے،تاہم اس کے ساتھ ساتھ ملک کی سنجیدہ سیاسی جماعتوں کو بھی سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا

کہ پاکستان میں مداریوں اور تماشا دکھانے والوں کو پنپنے نہیں دیا جائے گا،اگر سنجیدہ اور محب وطن سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر غیر سنجیدہ سیاستدانوں کو ایوانوں سے باہر نکالنے کے لیئے کمربستہ نہیں ہو گی اور میڈیا کے بھی بکائو اور نوآموز ماہرین کو چلتا نہیں کیا جائے گا ،اس وقت تک ملک کے سیاسی انتشار اور آئینی بحران پر قابو پانا ممکن نہیں ہے،ملک کے سنجیدہ اور مخلص لوگ مل بیٹھ کر ہی سیاست کی گند گی نکال سکتے ہیں ،ورنہ سیاسی کیچڑ ایسے ہی اُچھلتا رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں