80

عقل و فہم گر مثبت استعمال ہوتو نعمت وگرنہ زحمت

عقل و فہم گر مثبت استعمال ہوتو نعمت وگرنہ زحمت

نقاش نائطی
۔ +966562677707

مال و زر جاہ وحشمت یا دولت علم، لایعنی ہوجاتے ہیں جب مقصد حقیقی سے پرے ہو جاتے ہیں اپنی بہت سے خوبیوں کے ساتھ ںہ صرف ھند میں بلکہ عالم کی سنگلاخ وادیوں میں، اپنے انمنٹ نشان چھوڑتے ہوئے، اپنے ہزار بارہ سو سالا مستقر ھند کو صدا کے لئے نیک نام کرنے والے، ہمارے اسلاف اہل نائط عرب تجار بالھند کے، جائے پیدائش بھٹکل کی ایک ایسی شخصیت جو اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے

باوجود گمنامی کے دلدل میں پھنسی ہی رہ گئی تھی4 رمضان المبارک 1443 کی صبح سائبرمیڈیا واٹس آپ نے ،جناب انصار ایس ایم عرف عام بلگاڑی انصار کے مرحوم ہونے کی خبر جیسے ہی ہمیں دی، ہمارے ذہن و افکار کے پردہ سمین پر، آج سے ٹھیک 40 سال قبل کے کچھ واقعات نے، اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے

باوجود گمنامیوں کی وادیوں کا قصہ پارینہ بننے والے باب کو، کم از کم تاریخ اہل نائط کا حصہ بنانے کی سعی ناتمام کی کوشش پر ہمیں ابھارا ہےہر انسان کے “دور ذھبی” “گولڈن ایرا” کہے جانے والے زمانہ تلمیذی کلیہ دوران، سالانہ تعطیل پر ایک مہینہ کے لئے ہم جب بلاد شہر اس وقت کے بمبئی پہنچے غالبا دوسرا یا تیسرا دن تھا ہمارے جیجو محترم نے، دوسرے دن ہمیں تفریح کے لئے کسی اچھی جگہ لیجانے کی

خبر سناتے ہوئے اپنے ساتھ جس جگہ لے گئے وہ ہم جیسے طلاب کلیہ کے لئے، اس وقت بہشت ارضی سے کم تھوڑی نا تھا؟ بحیرہ عرب باندرا کے ساحل پر آس وقت آسمان کو چھوتی کثیر المنزلہ عمارت فائیو اسٹار ہوٹل سی روک کے بیس یا بائیسویں منزل پر ہمیں لے گئے اور جس شخص سے ہماری ملاقات کرائی وہ ایس ایم انصار تھے۔ ان کے ساتھ دو عرب باشندے بھی تھے جن کا تعلق سعودیہ کے تاریخی علاقے،

وادی الدواسر کے امیر یعنی کے راجہ کے طور ہم سے کرائی گئی، جیجو کا وہاں ہمیں ساتھ لیجانا انصار کو غالبا” پسند نہ آیا اسلئے کچھ وقت بعد جیجو ہمیں ایک اور کمرے میں لے گئے اور ہم سے کہا گیا کہ ان عرب شیوخ کے بہت سارے تجارتی وفود ملنے آتے رہتے ہیں ان کے لئے اس ہوٹل میں چار کمرے محجوز ہیں

اس کمرے میں کوئی رہتا نہیں ہے اس لئے ہم شام تک اس پورے فائیو اسٹار ہوٹل میں جہان چاہیں گھوم پھر سکتے ہیں اور اس کمرے میں آرام کرسکتے ہیں اور فائیو اسٹار ہوٹل میں موجود مختلف انواع کے کھانے کے ہوٹل، کافی شاپ وغیرہ سے، اپنی مرضی مطابق کچھ بھی کھا پی سکتے ہیں، ویٹر بل لے آئے تو کمرہ نمبر بتادینا، وہ بل انصار کے پاس لے جائیں گے اور اسکی تصدیقی مہر کے بعد، تم سے پیسے طلب نہیں کئے جائیں گے۔

عمر شباب میں ایسی بہشت ارضی سے لطف اندوز ہونے کا موقف بہت کم لوگوں کو ملا کرتا ہے۔ اسی شام شب کے کھانے پر، ہمیں اس وقت کا، ہم جیسوں کے لئے، عجیب و غریب غالبا26 ویں منزل پر قائم سیزر پیلیس ریوالونگ ریسٹورنٹ میں مغلائی باربیکیو کھانے سب کے ساتھ تناول کرنے کا موقع ملا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ جب تک

ہم اس ہوٹل میں مختلف کھانوں سے لطف اندوز ہورہے تھے تقریبا چاروں طرف پورے روشنیوں میں نہائے بمبئی شہر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ دنوں کی انہی ملاقات میں ہمیں انصار کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ۔ وہ بندہ دینی علوم کا ماہر آیات قرآنی تلاوت کرتا، فر فر موقع موقع کی نسبت سے احادیث سناتا ،کسی بھی موضوع پر کسی بھی نوع کی گفتگو ماہر باقاعدہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ تھا ہماری بحث و تمحیص کی جبلت نے، ان ایام ہمیں ان سے بہت قریب کیا تھا

پھر ہم 83 کے رمضان میں عمرہ و حج پر جدہ چلے گئے تو جدہ میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں ان دو تین دہوں کے درمیان ہمارا تعلق نا کے برابر ہی تھا لیکن آج ان کے انتقال کی خبر نے ان بھولی بسری یادوں کو، باد نسیم کے جھونکھوں کے دوش تازہ دم کردیا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی بشری تقاضوں کے تحت ،مثبت ومنفی پہلوؤں سے لبریز ہو! کرتا ہے، اللہ ہی سے دعا ہے کہ اپنوں کے اپنے اعتبار سے مدد و نصرت کرتے رہنے والے انصار کے مثبت پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے، اس کی بھرپور مغفرت فرمائے اور قبر و برزخ کر مراحل کو، اس کے لئے آسان کردے۔اور جنت کے اعلی مقام کو اس کے لئےمحجوز رکھے۔ آمین۔

انصار کی سابقہ نصف صدی والی زندگی کو دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں کہے ہوئے ہمارے مرحوم جیجو کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں کہ اگر انصار نے،اپنے میں موجود صلاحیتوں کو کما حقہ مثبت انداز استعمال میں لایا ہوتا تو ملک وطن کے سربراہ بھی ہوسکتا تھا اور تونگر عظیم بھی رہ سکتا تھا۔ لیکن مقدر کو ٹالا جاتا ہم انسانوں کے بس میں کہاں؟ وہ اتنے ذہین تھا کہ آج سے چالیس سال قبل جب ریگزار عرب کے

پیٹرو ڈالر سے عالم کا ہر کوئی فیض یاب ہونے کی راہ کا متلاشی تھا، عرب شیوخ کو بارگاہ ایزدی سے ملے من و سلوی سے فیض یاب ہونے مصروفیت کے چلتے، وہ اپنے مشیروں کے ہر صحیح غلط آراء ہی کو حرف آخر سمجھ عمل کیا کرتے تھے ،وادی الدواسر کے اس سعودی امیر کے نام نامی سے اس شخص نےاپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے، جدہ میونسپل کے کسی فرضی ٹھیکہ کے کاغذات تیار کرتے ہوئے،

کئی سو ویزے نکلوائے تھے اور انہیں مزدور پیشہ لوگوں میں بیچ کر بے تحاشہ دولت میں ان ایام کھیل رہے تھے۔ وہ جو کہتے ہیں نا؟ آسان دولت جس آسانی سے آتی ہے، اتنی ہی آسانی سے چلی بھی جاتی ہے۔ لیکن اس سے پرے، ان کی ذہانت اتنی تھی کہ جب یہ کئی سو لوگ فرضی دستاویزات ویزہ پر مملکت پہنچ گئے تو حکومت کی نظروں میں آنے سے ان کے احکامے یا ورک پرمٹ نہیں بن رہے تھے

۔ اس لئے وہ مزدور پیشہ جن کی اکثریت کیرالہ برادری کی تھی انہیں پکڑ ان سے رقوم واپس طلب کی جارہی تھئ تو، ہمیں بعد میں ملی اطلاع مطابق، ان ایام پیشہ وکالت سمیت اعلی تعلیم یافتگی سے منسلک سعودیوں کے فقدان کے سبب، ہم تاریک وطن ہی کی، سرکاری محکموں تک رسائی ہوا کرتی تھی ۔ ورک پرمٹ و احکامے سے محروم کئی سو تارکین وطن کے وکیل کی حیثیت سے، انہوں نے مقامی محکمہ عدل و انصاف میں کچھ ایسی بحث و تمحیض کی تھی کہ فرضی کاغذات پر بھلے ہی ویزے نکلے ہوں؟

لیکن ویزے تو حکومت نے جاری کئے تھے، ان تارکین ھند کو لوٹنے والوں نے تو عیاشیاں کی ہونگی؟ لیکن مجبور و مسکین ان کئی سو تارکین وطن کا کیا قصور؟ جو اپنے گھر زیور تک رہن رکھ قرضے لئے کچھ کماکر،اپنی آل اولاد کا مستقبل شاندار بنانے مملکت آچکے ہیں اگر انہیں واپس بھیج دیا گیا تو ان کے ساتھ ان کی آل اولاد کو خودکشی کر مرنے کے سوائے کوئی چارہ نہ بچے گا اس لئے چونکہ حکومت نے یہ ویزے جاری کئے ہیں اور ان کےپاس،انکے لئےروزگار کاکوئی مستقل پروجیکٹ نہیں بھی ہے

تو، انکے دو سال کے ویزے لگواتے یوئے، مملکت میں انہیں حلال رزق کمانے کا موقع فراہم کیا جائے۔ فرضی اوراق پیش کر ویزہ حاصل کرنے والے سعودی فرد کی سزا ان مساکین ھنود کو نہ دی جائے، ان کے اس وقت اس بحث تمحیص و تکرار کا یہ اثر ہوا، دارلقضاء محکمہ عدل نے، اس وقت کئی سو بھارتیہ نزاد تارکین وطن کو، باقاعدہ ورک پرمٹ یا احکامہ جاری کرتے ہوئے، محنت سے آزادانہ طور کچھ کمانے کا استحقاق دیا تھا۔

اور یوں ان کی ذہانت سے، انہی کی لغزشوں کی وجہ پھنسے، کئی سو افراد کو، مملکت میں کمانے کا حق ملا تھا اتنا ذہین و ذکی شخص صرف مثبت کے بجائے منفی راہ اپنے لئے منتخب کرنے کی وجہ سے شہرت و تمکنت کی بلندی پر پہنچنے کے بجائے،گمنامی و مفلسی کی زندگی جیتا ہوا، اپنے خالق و مالک کے پاس پہنچ چکا ہے بے شک انسان کو اسکا لا محدود علم،اس میں موجود صلاحیتیں اور اسکے پاس موجود مال و زر کے انبار بے معنی و بیکار ہوجاتے ہیں اگر اس کو تقدیر ساتھ نہ دے تو۔ اسی لئے

خود میں موجود علم و دیگر صلاحیتوں پر تکبر کرنے کے بجائے، ان نعمتوں کوخالق و مالک کی اعانت و امانت سمجھ کر انسانیت کی بھلائی کے لئے، استعمال کریں تو دنیا وآخرت سنور سکتی ہے ۔ علم تدبر میں یکتائیت سے لبریز، مقرب فرشتے کا حشر، کچھ لمحاتی تکبر نے اسے ملعون و معطون قرار دے تا قیامت ہم انسانیت کے لئے ایک مثال جو قائم کی ہے، آگر ہم انسان اسی سے سبق لے اپنے آپ کو راہ مستقیم پر ڈھال دیں تودنیا آخرت ہماری سنورسکتی ہے۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں