32

جہاد فی الاسلام کی حقیقت

جہاد فی الاسلام کی حقیقت

جہاد فی الاسلام کو دنیا نے غلط انداز سے لیا ہے اس لفظ جہاد کو اتنا بدنام کرکے رکھدیا گیا ہے کہ یہود و نصاری سازش کندگان نے گوگل، واٹس آپ، انسٹاگرام، فیس بک پر جہاد لفظ دیکھتے ہی ان کے پروگرام میں لال بتی روشن ہوجاتی پے اور وہ پورا مکالمہ ان کے آئی ٹی سیل کی نظروں سے ہوکر گزرنا گویا ضروری ہوجاتا ہے اور اس عمل سے بہت سارے جہادی ان کی نظروں میں آجاتے ہیں
اسلام میں جہاد دو اقسام کے ہیں پہلا جہاد دشمن اسلام کفار سے تعلق رکھتا ہے ہمیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہم مسلمانوں کی جان مال عزت آبرو، اور سب سے بڑھ کر، اپنے دینی عقائد سے ہمیں روکنے اور ہم پر حملہ آور ہونے والے کفار سے،دو دو ہاتھ کرنا جہاد ہے،اس جہاد کی آج کے تمدنی ترقی یافتہ جمہوری نظام پس منظر میں، نوے پچیھنؤ فیصد سے زیادہ مسلمانوں کو ایسے جہاد شرکت کے کم مواقع ملتے ہیں۔

دوسرا جہاد جو حقیقتا” ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے وہ ہے اپنے نفس سے جہاد کرنا۔ خود کو موجودہ دور کے خرافات سے بچانا، اپنے آس پاس بسنے والے انسانوں کو، چاہے وہ مسلمان ہو یہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کیوں نہ ہوں، اسلام نے انکے لئے جو حقوق، مقرر کئے ہیں ان کی بارآوری کا خیال رکھنا، دراصل جہاد کے اہم اوصول میں آتا ہےپڑوسی کے حقوق ہوں،

گلی محلے گاؤں کے ہم نشینوں کے حقوق ہوں، یا آس پاس پائے جانے والے چرند پرند اور دیگر حشرات الارض ہوں، انکے حقوق بھی ادا کرنا بھی بحیثیت مسلمان جو ضروری کیا گیا اس کا خیال رکھنا بھی تکمیل جہاد کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمیں یہ جو بتایا گیا کہ ہم آپ کا پڑوسی، گلی محلے گھر کے پچھواڑے رہنے والے گھر کے افراد، مفلسی تنگ دستی کے باعث، بھوکے پیٹ سونے مجبور ہوں

اور ہم اور آپ مرغ مسلم یا بھونی ہوئی بکرے کی ران کے مزے لیکر سیر ہوتے، سوئے پائے گئے ہوں، تو ہمیں بتایا گیا کہ ان غرباء و مساکین کا خیال نہ رکھنے کی پاداش میں ہمارے نماز، روزے ذکر و اذکار بھی،بعد موت ہمارے کام نہیں آئیں گے۔ پڑوسی کا خیال رکھنے اس حد تک تاکید کی گئی ہے کہ ہم آپ کے گھر میں تربوز گر لایا جائے اور ہمیں اس بات کی خبر ہو کہ مفلسی کے باعث پڑوسی تربوز نہیں خرید سکتے اور اپنی کم مائگی یا کم دستیابی کے باعث ہم تربوڑ پڑوسی میں بانٹ کر نہیں کھاسکتے ہیں

تو، ہمیں ہدایت دی گئی ہےکہ تربوز کے چھلکے بھی گھر کے پچھواڑے کھلے نہ پھینکیں کہ پڑوسیوں کو ہمارے تربوز کھانے اور، تربوز سے انہیں محروم رکھنےکا علم ہو اور انہیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہو۔ چہ جائے کہ ہم تو روزانہ بریانی اور حلیم کے مزے لوٹ رہے ہوں اور ہمارا پڑوسی چند نوالوں کے لئے ترس بھوکے پیٹ سونے مجبور پایا جائے، اللہ نے ہمیں جو رزق مہیا کیا ہوا ہے

اس ہر قناعت و تشکر کے بجائے، اپنی تجارت میں ہمیں موقع ملنے پر، ہم ڈنڈی مار، یا جھوٹ بول دھوکہ دے، یا رمضان جیسے مذہبی تیوہاروں ہی کے موقع پر، بڑھتی مانگ کے چلتے، قیمتیں بڑھا اپنے گراہکوں کو لوٹ لوٹ کر، اپنے اور اپنی آل اولاد کے تعیش کے سامان جمع کررہے ہوں، تو ہم خود اندازہ کرسکتے ہیں

کہ خالق کائیبات ،اس کی اپنی مخلوق کو لوٹنے والے ہم مسلمانوں کے نماز روزے ذکر واذکار کی مجالسں دیکھ کر،ہم سے خوش ہوگا اور ہم پراپنی رحمتوں کی برسات نازل کرتا پایا جائیگا؟ یا اسکی اپنی مفلوک الحال،مخلوق انسانوں کی خبر گیری،داد رسی نہ کرنے کی پاداش میں، ہمیں سزا دیتا پایا جائیگا؟

یہی تو جہاد اکبر ہے کہ ہم اپنے اللہ کی طرف سے ہمیں عطا رزق پر قناعت کرتے پائے جائیں، کسی کو دھوکا دے، یا جھوٹ بول کر، کمائے حرام رزق سے بچیں اور اس کے لئے اپنے اللہ کا تشکر ادا کرنے ہی کی نیت سے، اللہ کے ہمیں دئیے حلال رزق میں سے ایک حصہ، آپنے آس پڑوس گلی محلے، گھر پچھواڑے رہنے والے رشتہ دار یا غیر رشتہ دار، مسلم کہ غیر مسلم، مفلک الحال تنگدست انسانوں کے لئے مختص کریں۔ تمام مفلوک الحال انسانوں کو کھلانے پلانے کی ذمہ داری ہماری نہیں ہے،

ہم سے جتنا ممکن ہو ہم کریں،چاہے کہ وہ کسی مسکین کے پیٹ میں جانے والا ایک لقمہ ہی ہماری رزق کے حصہ میں سے کیوں نہ ہو، اپنے اللہ کی دیگر مخلوق کا خیال رکھنے والے ہم بنتے، اپنے اللہ کے خیال خاص میں رہنے والوں میں سے ہم پائے جائیں۔ یہی تو ہم عام انسانوں کے لئے جہاد اکبر ہے

۔کل قیامت کے دن ہم اپنے، دنیا میں ادا کئے فائیو اسٹار حج و عمرہ کی کثرت، یا نفل نماز و روزے و ذکراذکار کے سہارے یوم محشر،قہار و جبار رب دوجہاں سے، ہمارے لئے رحیم و کریم ہونے کا تصور بھی کیا کرسکتے ہیں؟اسکے نبیوں اور رسولوں سے اسکا یہ صریح پیغام جب ہم تک پہنچ چکا ہے

کہ ،خالق و مالک دوجہاں کی رضا، اسکی دیگر مخلوق کے ساتھ ہمارے حسن سلوک پر، ہمارا فیصلہ کل قیامت کے دن ہونا ہے، تو پھر ہم ڈنڈی مار،جھوٹ مکر سے اسکی مخلوق کو دھوکہ دے، لوٹ لوٹ کر کمانے والے حقوق العباد کے مجرم، اپنی حرام کہ مشتبہ دولت سے ادا کئے کثرت اعمال خیر کے بل پر، کل قیامت کے دن سرخ رو کیسے یوسکتے ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں