74

کپتان حکمرانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گیـ

کپتان حکمرانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گیـ

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

عدالت عظمی کے فیصلے پر عملدرآمد کے نتیجہ میں آخری گیند تک لڑنے کے دعویدار عمران خان عدم اعتماد کامیاب ہونے پر اب سابق وزیر اعظم ہو چکے ہیں، پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان تین سال 7 ماہ 22 دن تک ملک کے وزیر اعظم رہے، کپتان نے عرصہ قبل کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آئیں گے تو قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کریں گے، تو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے کرپٹ قائدین اکٹھے ہو کر اس کے خلاف محاذ بنائیں گے کیونکہ یہ ملک کا لوٹا ہوا مال واپس نہیں کرنا چاہتے،

سو ایسا ہی دیکھنے میں آیا، کپتان اقتدار میں آئے اور احتساب کا عمل شروع ہوا ، ملکی تاریخ میں پہلے بار دیکھا گیا کہ اپوزیشن کے ساتھ حکمران جماعت کی شخصیات کا بھی احتساب شروع ہو گیا، پی ٹی آئی کے صوبائی وزراء سبطین خان اور علیم خان کو جیل یاترا کرنی پڑی، کپتان کو اقتدار تک پہنچانے میں مدد کرنے والے جہانگیر ترین اور اس کے بیٹے کیخلاف مقدمات کھل گئے تو ایک دوسرے پر تنقید کے

نشتر برسانے والے بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان جو ایک دوسرے کے حریف تھے، حلیف بن گئے، ساڑھے تین سال تک اپوزیشن نے خوب شور شرابا کیا، لیکن کپتان کہتے رہے کہ گھبرانا نہیں ہے اور ساتھ اپوزیشن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے رہے

، پھر نادیدہ قوتوں نے اپنا کام دکھایا، اور پی ٹی آئی کے 22 ارکان قومی اسمبلی منحرف ہو گئے، اتحادی ایم کیو ایم بھی ساتھ چھوڑ گئی، اسی طرح کی صورتحال پنجاب اسمبلی میں بنی، پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین اور علیم خان کے حامیوں نے فارورڈ بلاک بنا لیے، جہانگرین ترین کا کپتان کی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے میں اہم کردار تھا، لیکن ایک گروپ نے جہانگیر ترین کیخلاف عمران خان کے

اتنے کان بھرے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین میں دوریاں پیدا ہو گئیں، جس سے کپتان کی مشکلات شروع ہوئیں اور پھر پوری قوم نے دیکھا کہ پیسے کی ریل پیل نے کئی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو ادھر سے ادھر کر دیا اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ آخری بال تک لڑنے والے کپتان کیخلاف 174 ارکان اسمبلی نے عدم اعتماد کر دیا، ان میں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا،

کپتان کہتے ہیں کہ ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک غیر ملکی سازش ہے اور مخالفین غیر ملکیوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں، غیر ملکی خط کی حقیقت کیا تھی؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس حوالے سے کپتان کی کسی فورم پر بات نہ سنی گئی۔مثل مشہور ہے کہ مشکل وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے، کپتان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، جنہیں کپتان اپنا جانثار ساتھی سمجھتے تھے وہی کپتان کو لے ڈوبے

وفاق کے بعد اب پنجاب میں بھی عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہو گی اور پنجا ب میں بھی پی ٹی آئی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے، اس صورت میں میاں شہباز شریف وزیر اعظم اور انکے بیٹے حمزہ شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی بن جائیں گے ملکی تاریخ میں وفاق میں یہ پہلی عدم اعتماد کی تحریک ہے

جو کامیاب ہوئی اور نئی مثال یہ قائم ہو گی کہ باپ ملک کا وزیر اعظم اور بیٹا ملک کا وزیر اعلی ہو گا، ذرائع کہتے ہیں کہ کل کی اپوزیشن اور آج کے حکمران اتحاد نے مولانا فضل الرحمان کو صدر مملکت کے عہدہ کیلئے کہا ہوا ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی سوچے گی کہ صدر کے عہدہ کیلئے کون مناسب ہے۔ جو اس بات کا عندیہ ہے کہ پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمان کو صدر مملکت بنانے کے حق میں نہیں

، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر معاملہ گڑ بڑ ہو جائے گا۔ کیونکہ اگر مولانا فضل الرحمان صدر بن جاتے ہیں تو پیپلز پارٹی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس لئے اب پیپلز پارٹی کوشش کرے گی کہ آصف علی زرداری کو صدر بنوایا جائے اور چیئر مین سینٹ کیخلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لا کر یوسف رضا گیلانی کو چیئر مین سینٹ بنوایا جائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کیخلاف احتجاج اور تحاریک کا سب سے

زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے جو وفاق اور پنجاب میں اعلی عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہری، اب وفاق اور پنجاب میں جو حکومت بنے گی اس میں دلچسپ امر یہ ہو گا کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان اگر عدالت سے نا اہل نہ ہوئے تو پھر اقتدار کے مزے لوٹیں گے اور ان منحرف ارکان میں سے کئی وفاقی وزراء اور کئی صوبائی وزراء بنیں گے، لیکن پی ٹی آئی کے ان منحرف ارکان کو آنے والے انتخابات میں اپنے انتخابی حلقوں میں سخت عوامی دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی

بات ہو رہی تھی سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کی صورت میں وزیر اعظم کیخلاف ملکی تاریخ کی پہلی کامیاب عدم اعتماد کی تحریک کی جس کے نتیجہ میں اب شہباز شریف وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں، اتحادیوں نے شہباز شریف کو اور پی ٹی آئی نے شاہ محمود قریشی کو وزیر اعظم کے عہدہ کیلئے نامزد کیا ہے، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف 174 افراد کے عدم اعتماد کے بعدپی ٹی آئی کے ہاتھ سے

گیم نکل چکی ہے اور اب اسمبلی میں رسمی کارروائی ہونا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر ضرورت پڑی تو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان سے بھی ووٹ کاسٹ کروا لیا جائے گا، اس طرح اب پی ٹی آئی، ق لیگ اور ان کے اتحادی اپوزیشن میں بیٹھیں گے، کپتان نے کہا تھا کہ اگر انہیں حکومت سے ہٹایا گیا تو وہ مخالفین کیلئے خطرناک ثابت ہونگے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کس طرح اپوزیشن کرتی ہے؟ ذرائع کہتے ہیں

کہ کپتان پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے وفاق، پنجاب اور کے پی کے میں استعفے دلوانے کی پلاننگ کر رہے ہیں، اگر ایساہو جاتا ہے تو عدم اعتماد کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والوں کی خواہشات ایک بار پھر چکنا چور ہو جائیں گی اور انہیں دوبارہ الیکشن میں جاناپڑے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اپوزیشن خوب اپوزیشن کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ حکومت گرانے کیخلاف ماضی کی طرح طویل دھرنا بھی دیں، کیونکہ کپتان اب کسی صورت چین سے نہیں بیٹھیں گے، حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے ہر حربہ آزمائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں