Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

ہم نہ جانے کب آزاد ہوں گے !

مسلم لیگ (ن) ایک مرتبہ پھر اقتدار اورتحریکِ انصاف بحیثیت اپوزیشن سڑکوں پر نظر آنے لگی ہے ،یہ کب تک سڑکوں پر رہے گی

ہم نہ جانے کب آزاد ہوں گے !

کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد

ملک میں ایک وزیراعظم کے چلے جانے کے بعد دوسرا آگیا ہے اور اس نے آتے ہی حسب روایت اپنی پہلی تقریر میں عوام کو سنہری خواب دکھانے شروع کر دیئے ہیں، اگر پچھلے وزرائے اعظم اور حکمرانوں کے پہلے خطاب کا تجزیہ کیا جائے تو کوئی نئی بات سامنے نہیں آئے گی،ہر اقتدار سنبھالنے والا ملکی ترقی خوشحالی کے عزائم ظاہر کرتا ہے، کچھ اچھے اعلانات کرتا ہے اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ پرانے ڈھب پر آجاتا ہے

،میاں شہباز شریف نے بھی وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں وہی کچھ کہاہے کہ جو اس سے قبل وزرائے اعظم کہتے چلے آئے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے قومی ہم آہنگی پہلی ترجیح ہوگی ،جمہوریت اور معیشت کو آگے بڑھانے میں ڈیڈ لاک نہیں ڈائیلاگ اور مخاصمت کی جگہ مفاہمت سے کام لیا جائے گا۔
یہ ساری باتیں قوم متعدد بار سن چکی ہے اور اچھی طرح سمجھ بھی چکی ہے،لیکن قو م کو ایک بار پھر زبر دستی بتایا جارہا ہے، بلکہ اسے زبردستی سمجھایا بھی جارہا ہے کہ ملک میں وزارت عظمیٰ کی تبدیلی کے ساتھ کوئی خاص تبدیلی آگئی ہے، جبکہ ایسا ہر گزنہیں ہے ،اس ملک کی سیاست میں جتنا پیچھے چلے جائیں

تو ہر بار یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ اس بار تبدیلی آئی ہے لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی،اس ملک کی سیاست میں صرف چہرے تبدیل ہوتے رہے ہیں،باقی سب کچھ ویساہی رہتا ہے ، عوام کل بھی معاشی غلامی زنجیروں میں جکڑے تھے ،آج بھی بڑھتے معاشی مسائل سے آزاد نہیں ہیں، عوام کے درینہ مسائل میں کمی کے لاکھ دعوئوں کے باوجود آضافہ ہی دیکھا جارہا ہے ۔اس ملک میں جو بھی نیا حکمران آتا ہے

،عوام کو بہلانے کیلئے بڑے وعدے اور دعوئوں کے ساتھ بڑے اعلانات کرتا ہے ،میاں شہباز شریف کے ابتدائی اعلانات بھی جیسے گزشتہ اعلانات کا تسلسل ہیں ،ویسے ہی حکومت بھی گزشتہ حکومتوں کا تسلسل ہوگی، میاں شہباز شریف کے تمام اعلانات اور تقریروں کا طریقہ کار بھی وہی ہے جو اس سے پہلے حکمران کرتے رہے ہیں ،بلکہ معاملات مزید خراب ہوتے نظر آتے ہیں،کیونکہ فیصلہ سازی اور بندر بانٹ میں دوسری پارٹیوں کی مشاورت بھی ہو گی،اس لیے توپہلے کہا جاتا تھا کہ کشمیر آزاد کرائیں گے،

لیکن اب کہا جانے لگاہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ہے، گویا خطے کا امن اصل مسئلہ ہے ،کشمیر کی آزادی نہیں ہے،اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ ملک کو ایشین ٹائیگربنائیںگے، اب معیشت کے استحکام کی مبہم باتیں کی جارہی ہیں۔پا کستانی عوام کے سامنے سیاسی قیادت کے قو ل وفعل کا تذاد واضع طور پر سامنے آنے لگا ہے ،عوام اچھی طرح جان چکے ہیں

کہ ان کے اعلانات اور عملی اقدامات میں تزاد پایا جاتا ہے ،اس سے قبل بھی تنخواہوں اورپنشن میں اضافہ کے ساتھ روز مرہ ضرورت کی کچھ اشیاء سستی کی جاتی رہی ہیں، شہباز شریف نے بھی آتے ہی آٹا سستا کرنے کا اعلان کردیا،مگر عوام مہنگائی اوربے روز گاری کا خاتمہ چاہتے ہیں ، میاں شہباز شریف کا بھی خیال ہے کہ انہوں نے آکر پاکستان بچالیا ہے،اس سے قبل بھی آنے والے یہی کہتے رہے ہیں

کہ انہوں نے پاکستان بچایا ہے، بلکہ ایک قدم آگے نیا پاکستان بنایا ہے ،جبکہ شہباز شریف عوام کو نئے پا کستان سے پرانے میں لانے کے دعوئے کررہے ہیں۔پاکستانی عوام کو نئے،پرانے کی نہیں ،ایک مضبوط ،مستحکم پا کستان کی ضرورت ہے،جبکہ حکمرانوں کا مقصد عوام کو چھوٹے دلاسے دیے کر اپنے اقتدار کو طول دینا ہے،سادہ لوح عوام غور کرنے کی کوشش اور زحمت ہی نہیں کرتے ہیں کہ جب نئی حکومت آتی ہے تو بہت سے اعلان کرتی ہے اور جب جاتی ہے تو ان میں سے کسی اعلان پر کوئی عمل نہیں ہوتا ہے

،ایک بار پھر ایک نئے وزیراعظم نئے اعلان کے ساتھ آگئے ہیں اور پا کستان کو بچانے اور آگے لے جانے کی باتیں کررہے ہیں تو عوام کو چا ہئے کہ میاں شہباز شریف پر واضح کردیں کہ اگر اپنے دعوئوں کے مطابق واقعی پا کستان بچانا ہے تو آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اوراسٹیٹ بینک کے بارے کیے گئے فیصلے واپس لیے جائیںاور پا کستانی عوام کو عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے نجات دلائی جائے

،عوام نہ جانے کب آزاد ہوں گے ،عوام کو حکمرانوں نے ہی غلامی جکڑا ہے اور حکمران ہی آزاد کراسکتے ہیں ،میاں شہباز شریف کا عوام کیلئے صرف آٹا سستا کرنا کافی نہیں ہوگا ،انہیںمجموعی طور پر مہنگائی میں کمی لانے کے ساتھ بے روز گاری کا بھی خاتمہ کرنا ہو گا ،اس خطے میں قیام امن مودی سے تعلقات استوار کرنے سے نہیں مقبوضہ کشمیر کی آزادی سے ہی آئے گا ،اس کیلئے حکومت کے منہ پر لگی چپ اور بندھے ہاتھ کھولنا ہوں گے ،اس کے بغیر خطے میں امن ہو گا نہ عوام آزادی سے سکھ کا سانس لے سکیں گے۔

Exit mobile version