سیاست میں وقت کم مقابلہ سخت ہے!
کالم: صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
مسلم لیگ (ن) ایک مرتبہ پھر اقتدار اورتحریکِ انصاف بحیثیت اپوزیشن سڑکوں پر نظر آنے لگی ہے ،یہ کب تک سڑکوں پر رہے گی، اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن سابق وزیراعظم عمران خان عوام کو متحرک کرنے اور اپنے بیانیے کو گھر گھر پہنچانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں،اگر موجودہ سیاسی حالات میں دیکھا جائے تو میاں شہباز شریف حکومت اور تحریکِ انصاف کے لیے آئندہ دو ماہ بہت اہم ہیں،
میاں شہباز شریف نے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانا ہیں،جبکہ عمران خان نے عوامی دبائوں بڑھانا ہے ، اگر نئی حکومت ابتدائی دنوں میں اپنے وعدوں اور نعروں کے مطابق عام آدمی کے لیے کچھ نہ کر سکی تو پھر اپوزیشن کا عوامی ریلا اسے بہا لے جائے گا ۔
اس میں شک نہیں کہ متحدہ اپوزیشن کی کائوشوں کے باعث پی ٹی آئی حکومت کا چار سالہ دورِ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے،تاہم اس کا میابی کے بعد حاصل کردہ اقتدار لے کر چلنا اتنا آسان نہیں ہے،اس نئی حکومت کو بہت سے بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا،حکومت کیلئے کچھ چیلنج تو ملک کے اندرونی حالات سے تعلق رکھتے ہیں
اور کچھ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سطح پر ہونے والی اہم تبدیلیوں سے متعلق ہیں،ملک کے اندر تو معاشی بدحالی کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری ایسے چیلنجز ہیں کہ جن سے نمٹنا کسی بھی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا، اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے،اس میں چاہتے نہ چاہتے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا ،آئی ایم ایف کے پاس جانے کاصاف مطلب ہے کہ مہنگائی قابو کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوسکیں گے
۔پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو تحریک انصاف حکومت گرانے اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے ملک کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی تیار ہی نہیں کی ہے ، اس لیے اب اقتدار سنبھال کر عوام کے سامنے خود کو غیر مقبول ہونے سے بچانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا، اس وقت مسلم لیگ (ن )اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جو حکومت تشکیل دیے رہی ہے،اس میں دیکھنا ہے
کہ کن ناموں پر اتفاق ہوتاہے اور وہ لوگ اقتدار سنبھالنے کے بعد ایسی کون سی پالیسیاں اختیار کرتے ہیں کہ جن سے ایک طرف عوام مطمئن ہو جائے تو دوسری جانب عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات بھی سیدھے رکھے جا سکیں گے،میاں شہباز شریف محدود سی مدت میں کیا کچھ کرتے ہیں ،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ،تاہم عمران خان انہیں وقت دینے کیلئے بالکل تیار نہیں ہے ۔
اس بار میاں شہباز حکومت کو عمران خان کی اپوزیشن کا سامنا ہے ، وہ آنے والے دنوں میں شہر شہر جلسے کر کے اور سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں بہت زیادہ ٹف ٹائم دیتے رہیں گے ،مسلم لیگ( ن) اپنے دور حزب اختلاف میں بڑی بڑھ چڑھ کر کہتی رہی ہے کہ ہمیں موقع دیا جائے تو سارے مسائل حل کر دیں گے
،لیکن اب مفتاح اسماعیل نے بڑی آسانی سے کہہ دیا کہ فوری طور پر مہنگائی دور کرناممکن نہیں ہے ،حکومت کو ذہن نشیں کر لینا چاہئے کہ یہ دو دھاری تلوار پرچلنے جیسا ہے ،اگر مہنگائی کم نہیں ہوتی تو عوام میں غیر مقبول وہی جماعت ہو گی کہ جو اس وقت وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہے
،یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے ہی آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوایا ہے ،تاکہ میاں شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے شوق میں سب کچھ خود ہی بھگتیں ،اس حوالے سے حکومت کو کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا ،مگر عمران خان کوئی در میانی راستہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔
اس وقت تحریکِ انصاف کے حامی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اپنے قائد کے بیانیے سے جڑے ہوئے ہیں،سابق وزیراعظم عمران خان کارکنوں کے جوش و جذبے کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی رابطوں کا سلسلہ جاری رکھنےکے موڈ میں نظر آرہے ہیں،وہ جلسوں کے ذریعے اپنے بیانیے کو گھر گھر پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں،حکومت ختم ہونے کے بعد عوامی سطح پر حمایت سے ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں،
وہ ایک طرف حکومتی کمزوریوں اور غلط فیصلوں کو عوام کے سامنے رکھیں گے تو دوسری جانب اپنے دیرینہ بیانیے کو دہراتے ہوئے کارکنوں کو حکومتی مخالف تحریک کا حصہ بنے رہنے پر قائل کریں گے ،تحریک انصاف کے کا میاب پشاور جلسے نے ان کے حوصلے مزید بڑھا دیے ہیں،اس کے بعد عمران خان کراچی اور لاہور میں بھی جلسوں کی تاریخیں دیے چکے ہیں
،نئی حکومت کے لیے مسلسل مخالف جلسوں کا مقابلہ کرنا کسی بڑے امتحان سے کم نہیںہے، میاں شہباز شریف اور عمران خان کے مابین بڑا سخت مقابلہ ہے کہ کون عوام میں اپنی مقبولیت بڑھاتاہے ، عمران خان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ،جبکہ میاں شہباز شریف کو اپنی ساکھ کے ساتھ اپنی حکومت بھی بچاناہے،تاہم اْن کے پاس وقت کم اور مقابلہ انتہائی سخت ہے!