آج کادور بڑا عجیب دورہے پاکستان کے ایک صوبہ سندھ میں قانون سازی کی گئی ہے کہ کسی نو عمرکی اسلام 42

تاریخ معاف نہیں کرتی

تاریخ معاف نہیں کرتی 

جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی

ایک کہاوت ہے اگر آپ سچ کے ساتھ نہیں کھڑے تو تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے یا پھر کسی طوائف کے کوٹھے پر اس کے ناز اٹھارہے تھے۔۔تاریخ تاریخ ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی کہتے ہیں تاریخ کے سینے میں دل بھی نہیں ہوتا اب کوئی مانے، نہ مانے،بہانے تلاش کرے،لاکھ عذر تراشے، الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھاکررکھ دے یا جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کا ہنر جانتاہویا پھر واقعات کے سیاق وسباق بدلنے پر قادرہو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ سچ ایک بہت بڑی قوت ہے سچائی کو وقتی طورپر دبایا جا سکتاہے لیکن دوام اسی کو حاصل ہے

یہ الگ بات کہ دنیا دار کاغذکے پھولوں سے خوشبو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ سقراط نے اپنے ہاتھوں زہرکا پیالہ پی لیا، عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا نبی ٔ اکرم ﷺکے دندان مبارک شہید کردئیے گئے،کہتے ہیں سرمدنے اپنا پوش اتاردیا تھا،منصور بھی معتوب ٹھہرا درحقیقت دنیا میں ہمیشہ سچ کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا ہے ۔لوگ سنتے، سمجھتے اور دیکھتے ہیں اس کے باوجود بیشتر سچائی کا ساتھ دینا پسندنہیں کرتے امام حسینؓ کوخود لوگوںنے مکتوب بھیجے،ساتھ دینے کاعہدکیا

لیکن عملاًبے وفائی کے مرتکب ہوئے اورآج بھی کوفیوں کے اس کردارکو پسندنہیں کیا جاتا جبکہ نیزے پر قرآن کی تلاوت کرنے والا سربلندہے درحقیقت وقت کے ساتھ ساتھ سچ کی عظمت میں اضافہ ہوتاچلا جارہاہے لیکن سامنے کی بات اکثر لوگوںکی سمجھ میں نہیں آتی کہ آج دنیاکا ماحول ہی ایساہوگیاہے سچ پر جھوٹ اس قدر غالب ہے کہ حقائق مسخ ہوتے چلے جارہے ہیں ہم دنیا داروںمیں سچ سننے،بولنے اوربرداشت کرنے کا حوصلہ نہیں سچی بات تو یہ ہے کہ ہم سب سچ سے خوفزدہ ہیں،ہمیں ڈر لگتاہے

سچ بولاتو نہ جانے کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔۔۔آج دنیاپر جھوٹ کی حکمرانی ہے، جھوٹ کا کاروبار عروج پرہے،جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ اچھا لگتاہے سچ بیشترکو پسندہی نہیں۔ازل سے جھوٹ۔۔ سچ کے خلاف برسرِ پیکارہے۔۔خیراور شرکی جنگ جاری ہے حالات جیسے بھی ہوں، نتیجہ جو بھی نکلے تاریخ کے صفحات اٹھاکر دیکھ لیجئے فتح ہمیشہ سچ کی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ کا توحکم ہے کہ سچ کو جھوٹ کے پردے

میں مت چھپائو ۔۔۔لیکن ہر جگہ جھوٹ کی حکمرانی ہے عدالتوںمیں جھوٹے گواہ اورجھوٹے مقدمے افراط میں ہیں حکمران، جج، وکیل ،سائل،مدعی سب کچھ جانتے ہوئے بھی بے بس ہیں اس استحصالی نظام نے اس اندازسے سسٹم کوجکڑرکھاہے کہ کوئی پرنہیں مار سکتاپس جھوٹا سچا اور سچا جھوٹا بن گیاہے اور اس پر اترانا فیشن بن گیا یہ سب کچھ اللہ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اسمعاشرے میں تو جو جتنا جھوٹ بولے اتنا کامیاب سمجھا جاتاہے چندماہ قبل ایک سیاستدان نے قوم سے وعدہ کیا تھا

کہ میں سچ بولوںگا حالانکہ کچھ نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ انہوں نے سچ بولنا ہی نہیں ہے کمال ہے پھر بھی ان کے لاکھوں فالوور ہیں کوئی شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے کی کہاوت سن کربھی وہ بے مزہ نہیں ہوتے نہیں قومی رہنمائوںکو ہر حال میں سچ بولنا اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ سیاستدان رات دن جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور انہیں اس میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی اورسیاسی کارکن ہیں کہ وہ اپنے لیڈرکی ہر سچی جھوٹی بات کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں

یہ اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ انہیں سچ بولنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی سناہے جب انسان مسلسل جھوٹ بولنا اپنا شعار بنا لیتاہے تو پھراس کے دل و دماغ پر مہر لگادی جاتی ہے۔۔ جبکہ سفیدجھوٹ بولنا حکمرانوںکا وطیرہ بن چکاہے جھوٹے وعدے،بلند و بانگ دعوے اور سبزباغ دکھانا ان کی گھٹی میں پڑاہواہے ان کے اس طرز ِ عمل نے کرپشن کو بے انتہافروغ دیاہے بیوروکریسی،فوجی ڈکٹیٹروں، افسرشاہی

، بیشتراپوزیشن رہنمائوں، اکثرمذہبی سیاستدانوں، کئی سرمایہ داروں اور روایتی جاگیرداروں پر مشتمل اشرافیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ان تمام کے تمام نے اس ملک کو جی بھرکر دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اربوں کھربوں بیرون ممالک منتقل کردئیے ان پر منی لانڈرنگ، بے نامی اکائونٹس ،اختیارات سے تجاوز اورکرپشن کے سانٹیفک طریقے ایجاد کرنابھی ثابت ہوچکاہے اور ستم بالائے ستم کہ ان کے حامی ابھی تک زندہ باد کے نعرے لگا کر ان کے گرددھمال ڈالتے ہوئے ناچتے پھرتے ہیں لیکن ایک بات ہے

شاید لوگوںکا معیاربدل گیاہے یاپھر ہم ایمان کے اس درجے پر پہنچ گئے ہیں کہ برے کو برا کہنا بھی برا لگتاہے اور اسی لئے اب ضمیر ملامت بھی نہیں کرتا بلکہ نوٹ دیکھ کر ضمیر’’ جاگ‘‘ جاتاہے انہیں اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ کوئی بھرے بازار میں لوٹا ای اوئے کہہ کر بچی کھچی عزت کی دھجیاں ہی نہ بکھیرکررکھ دے سب سے براحال تو تاریخ ان لوگوںکاکرتی ہے جو جھوٹ کے سوداگر ہیں اگر آج عوام کا مائنڈسیٹ بدلنے والوںکو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں لیکن ایسے رہنمایقینا اپنے

اندرکے خوف پریشان ہیں کہ کہیں چہروں سے عیاں نہ ہو جائے شاید اسی لئے نظریں ملاکر بات کرنے سے گریزاں ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سچ پر جھوٹ اس قدر غالب ہے کہ حقائق مسخ ہوتے چلے جارہے ہیں ہم دنیا داروںمیں سچ سننے،بولنے اوربرداشت کرنے کا حوصلہ نہیں سچی بات تو یہ ہے کہ ہم سب سچ سے خوفزدہ ہیں اب سوچیںایسے حکمرانوںکاکیا بنے گا جس کامعیار ہی پر منی لانڈرنگ

، بے نامی اکائونٹس ،اختیارات سے تجاوز اورکرپشن کے سانٹیفک طریقے ایجاد کرناہے اور انکے حق میں نعرے لگانے والے کہاںکھڑے ہیں وہ خود اندازہ لگالیں کیونکہ اگر آپ سچ کے ساتھ نہیں کھڑے تو تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے یا پھر کسی طوائف کے کوٹھے پر اس کے ناز اٹھارہے تھے۔۔تاریخ تاریخ ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی کہتے ہیں تاریخ کے سینے میں دل بھی نہیں ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں