44

عوام کی حالت کب بدلے گی؟

عوام کی حالت کب بدلے گی؟

پا کستان میں میں سیاسی منظرنامہ بدل گیا ،مگر عوام کے حالات زندگی میں کو ئی تبدلی نظر نہیں آرہی ہے،نئے وزیر اعظم کو حلف اُٹھائے چھٹا روز ہے ،مگر نئی حکومت ابھی تک اڑان بھرنے کی تیاریوں میں ہی لگی ہے ،نئی حکومت کے قیام کے بعد کا بینہ کی تشکیل عملی پیش رفت کا نقطہ آغاز ہوتی ہے ،مگر اس عملی آغاز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تاخیر ہورہی ہے ،اس نئی حکومت کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں ، یہ بات حکومت بہت اچھی طرح جانتی ہے ،اس کے باوجود سننے میں آرہا ہے

کہ سابق حکومت بہت سے مسائل چھوڑ گئی ہے ،یہ بیانیہ اب زیادہ دیر نہیں چلے گا ،عوام یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ نئی حکومت اپنی قابلیت کے جو ہر کیو نکر دکھائے گی۔اس میں شک نہیں کہ میاں شہباز شریف حکومت میں آنے سے قبل جہاں بہت سے دعوئے کرتے رہیں ،وہیں یقین دہانیاں بھی کرواتے رہے ہیں کہ اگر انہیں موقع دیا جائے تو ملک و عوام کے حالات بدل دیں گے

،میاں شہباز شریف کو قدرت نے موقع فراہم کیا ہے ،مگر وزیر اعظم کے حلف اُٹھاتے ہی ایک طرف نیشنل الیکڑک پاورنے بجلی کے نرخوں میں چار روپے پچاسی پیسے اضافہ کرکے عوام کو چونکا دیا تو دوسری جانب پٹرول کی قیمتوں میں بھاری اضافے کی تجویز حکومت کو بھیج دی گئی ہے ،اگر چہ سر دست حکومت نے قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ،مگر اس اوگرا کی تجویز کا دھڑکا مسلسل لگا ہی رہے گا۔
عوام کی قسمت میں اُمید لگانا اور پھر اُمید وں کا توٹنا لکھ دیا گیا ہے ، اس نئی حکومت سے ایک بار پھر عوام اُمید وابستہ کرنے لگے ہیں، اگرچہ حکمران اتحاد کثیر جماعتی ہے ،مگر وزارت عظمیٰ کے منصب کی وجہ سے مسلم لیگ( ن)ہی توجہ کا محور ہے اور نئی حکومت کے جو بھی فیصلے ہوں گے ،اس کیلئے مسلم لیگ( ن)قیادت کو ہی جوابدہ ہونا پڑے گا ،پیپلز پارٹی قیادت نے بڑی ہو شیاری سے سارا بوجھ مسلم لیگ( ن)قیادت کے کندھوں پر ڈال دیا ہے ،میاں شہباز شریف کے پاس صوبائی حکمرانی کا وسیع تجربہ ہے ،مگر وہ مرکز میں اپنا ٹریک ریکارڈ برقرار رکھ پاتے ہیں کہ نہیں ،آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
اس بات سے عوام کو کوئی غرض نہیں کہ کس نے کس کے کا ندھوں پر بوجھ ڈالا ہے ،عوام ہر سورت اپنے مسائل کا تدارک چاہتے ہیں ،عوام برھتی مہنگائی اور بے روز گاری سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ،حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ اس کی شرح میں کس طرح کمی لائی جائے ،اگر حکومت عوامی مسائل کے

تدارک اور برھتی مہنگائی میں کمی لانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو یہ صرف وزیر اعظم یا کسی دوسرے حکومتی منصب دار کی جانب سے تنبیہ کر دینے سے نہیں ہو گا،اس کیلئے ایسے عملی اقدامات اور تکنیکی امکانات پیدا کرنے ہوں گے کہ جس کے ذریعے عوامی مسائل کے حل کے ساتھ بڑھتی مہنگائی پر قابو پایا جاسکے ۔
تحریک انصاف حکومت پر پی ڈی ایم قیادت جتنی مرضی تنقید کرے ،مگر اسے کریڈیٹ جاتا ہے کہ اس نے ملک کی صنعتی پیداوار میں کورونا وبا کے عالمگیر دبائو کے باوجود بھی اضافہ کیا ہے ، تاہم پا کستان کی صنعتی پیداواری سر گرمیوں اور برآمدات میں اضافے کی ابھی بہت گنجائش موجود ہے ،اس کام کیلئے

موجودہ حکومت موثر کو شش کر سکتی ہے ،اگر وزیر اعظم اپنی ادھر اُدھر آنی جانیاں دکھانے کی بجائے توانائی کے نرخوں میںکمی لانے کی کوشش کریں تو یورپ، امریکہ میں مزید برآمدی سہولیات حاصل کرکے پا کستانی برآمدات بڑھائی جاسکتی ہیں،اس ملک کی برآمدات میں جب تک اضافہ نہیں ہو گا ،ملک کی معیشت میں بہتری کا کواب ادھورا ہی رہے گا ۔

ہر دور حکومت میں ملکی معیشت میں بہتری لانے کے دعوئے بہت کیے جاتے رہے ،مگرعملی طور پر کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی گئی ،بلکہ مانگ تانگ کر وقت گزاری کی جاتی رہی ہے ، یہ مانگتے رہنے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا ،ہم مانگ تانگ کر زر مبادلہ کا توازن کبھی قائم نہیں کرسکتے،

اس کے لیے اپنی برامدات کو بڑھانا اور اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہو گا ،حکومت کے پاس ان اقدامات کو عملی شکل دینے کیلئے زیادہ وقت نہیں ،مگر یہ بحرانی کیفیت ہی ان ساری جماعتوں کا امتحان لے گی کہ جنہوں نے عدم اعتماد کے ذریعے ایک منتخب حکومت کو رخصت کیا ہے ،حکومت تو بدل گئی ،مگر عوام کی حالت کب اور کیسے بدلے گی ،کسی کو کچھ خبر نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں