46

استحکام کا راستہ عام انتخابات !

استحکام کا راستہ عام انتخابات !

کالم: صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
گزشتہ روز وفاقی کا بینہ کی تشکیل کے ساتھ نئی حکومت اپنے وجود میں مکمل ہو گئی ہے ،مگر سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام میں بدستور کسی کمی کا امکان ظاہر نہیں ہو رہا ہے ،سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد عوام کو متاثر کرنے والے بیانیہ کے ساتھ جارحانہ انداز میں پبلک جلسوں اور عوامی رابطہ مہم کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جبکہ موجودہ حکمران جماعتوں

کیلئے عمران خان کے بیانیہ کا توڑ کرنا مشکل ہو رہا ہے، اس لئے حکمران جماعتوں کی قیادتیں شش و پنچ کا شکار ہیں کہ اس بے یقینی کی فضا میں انہیں اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونے دینی چاہیے یا قبل ازوقت انتخابات کی جانب جانا چاہیے، اس حوالے سے حکومتی اتحاد میں فوری انتخابات کی رائے غالب ہوتی نظر آنے لگی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومتی اتحاد کی بدلتی رائے کے باوجود مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی انتخابی اصلاحات کے نام پر کچھ تبدیلیوں کے بغیرعام انتخابات کی جانب جانا نہیں چاہتے ہیں، جبکہ سابق حکمران پی ٹی آئی نے ایک طرح سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے تو دوسری جانب عمران خان فوری انتخابات پر ہی زور دے رہے ہیں،وہ اپنے بیانیے کی بنیاد پر بڑھتی مقبولیت کو فوری کیش کرانا چاہتے ہیں،

اس لئے عام انتخابات کے مطالبے کے ساتھ سیاسی دبائو بڑھا تے جارہے ہیں،حکمران اتحاد کی بھی کوشش ہے کہ انکی رابطہ عوام مہم زیادہ طول اختیار نہ کرے ،اس تناطر میں مولانا فضل الرحمن نے بھی تجویز دی ہے کہ نئی حکومت کو اپنا اقتدار طویل نہیں کرنا چاہیے ،جبکہ مسلم لیگ( ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے بھی اسی نوع کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی اتحاد کو اب نئے مینڈیٹ کاسوچنا چاہیے اور فیصلہ عوام کے سپرد کردینا چاہئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟
اس میں کوئی دورائے نہیں

کہ ملک کے سیاسی استحکام کا بہتر راستہ عام انتخابات کا انعقاد ہی ہے ،اس حوالے سے آرمی چیف نے بھی نئے انتخابات کے جلد انعقاد کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والے کو روکا نہیں جائے گا،اگر چہ اقتدار میں آنے اور رخصتی کا طریقہ کار آئین میں طے ہے،

تاہم پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے خلاف دو بنیادوں پر کارروائی ہوتی رہی ہے، اس میںایک کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر حکومتیں خود کو جوابدہ نہیں سمجھتیں اوردوسرا معاملہ پارلیمنٹ میں وفاداری تبدیل کرنے والے اراکین کا ہے ،ان دونوں معاملات کے متعلق آئین میں شقیں موجود ہیں، لیکن یہ شقیں مبہم اور موثر عملدرآمد کا طریقہ نہ بتانے کی وجہ سے مسئلے کا حل پیش نہیں کرسکیں ہیں۔
ہر دور اقتدار میںفلور کراسنگ اور کرپشن کے خاتمے کے دعوئے ضرورکیے جاتے رہے ہیں ،مگر اس کا عملی طور پر سد باب نہیں کیا جاسکا ، اگرکسی ایک حکومت نے جوابدہی کا عمل نیب یا احتساب سیل کی صورت میں ادارہ جاتی بنا نے کی کوشش بھی کی ہے تو اس پر سیاسی قیادت نے سیاسی انتقام کا الزام لگادیا، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جرم سے متعلق ٹھوس شواہد موجود ہوتے ہیں ،لیکن عدالتی عمل

کو اس طرح متنازع بنا دیا جاتا ہے کہ سارا مقدمہ مشکوک ہو جاتا ہے،پارلیمانی بالادستی کے راستے میں ایسی ہی چیزیں رکاوٹ بنی رہی ہیں، در اصل ہر دور اقتدار میںقلیل المدتی کامیابیوں کو پیش نظر رکھ کر ہی حکمت عملی اختیارکی جاتی رہی ہے، ماضی میں حکومت میں رہنے والی لگ بھگ ساری جماعتوں کا وطیرہ یہی رہا اور اب بھی وہی روش جاری ہے ،جمہوریت اپنی غلطیوں سے سیکھ کر فیصلے کرنے سے آگے بڑھتی ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں حکومت چلتی ہے نہ سیاسی اتحاد چلائے جاسکتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو ایک جمہوری نظام کی ضرورت ہے،لیکن اگر جمہوریت کچھ خاندانوں اور بالائی طبقات کے مفادات کی محافظ بنی رہے تو عام شہری اس سے بیزار ہو نے لگتا ہے،ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر
جو کچھ کیا گیا اور جو کچھ ہو رہا ہے ،وہ عوام سے پو شیدہ نہیں ،یہاں جمہوریت کے نام پر ضمیروں کی سرعام بولی لگائی جاتی ہے اور جمہوریت کے نام پر ہی دوسروں کے آلہ کار بنتے ہوئے منتخب حکومت گرائی جاتی ہے،اس کے زیر اثر پارلیمان میںاپوزیشن کی غیر موجودگی میں قابل بھروسہ اور پائیدار فیصلوں کا امکان نہیں رہتا ،تاہم اس وقت عمران خان نے جس طرح جلسے کر کے عوامی جذبات کا رخ اپنی طرف موڑ رہے ہیں ،یہ ایک نئی تحریک کا بھی آغاز ہو سکتا ہے ،لیکن قوم کو صرف سیاست ہی نہیں کھیلنا

‘ روزگار‘ سماجی ترقی اور تعلیم و صحت کے بے تحاشا مسائل ہیں،عوام عرصہ دراز سے اپنے مسائل کا تدارک چاہتے ہیں ،مگر سیاسی قیادت نے انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگارکھا ہے،عوام اور قومی مفاد کے نام پرایک بار پھر اکسریتی منتخب حکومت کو اقلیت میں بدل کر حکومتی اتحاد لایا گیا ہے ،اس اتحاد کے

مابین زیادہ عرصہ تک اتفاق برقرار نہیں رہ سکے گا، الگ الگ نظریات اور مفادات کو صرف ریاستی وسائل اور اختیار میں حصہ داری دے کر متحد رکھا جا سکتاہے نہ ہی اس سے کوئی سیاسی استحکام لایا جاسکتا ہے ،اس وقت معاملات میں ٹھہرائو اور استحکام کا سب سے بہتر راستہ عام انتخابات کا انعقاد ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں