61

تبدیلی کے روشن چراغ !

تبدیلی کے روشن چراغ !

کالم: صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد

مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل نے عام آدمی کا کچومر نکال رکھا ہے اور حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی ہے کہ جو ہمارے دامان غربت کو مزید تار تار کرنے کے لئے نئی شرائط لگا رہا ہے،موجودہ حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے پندرہ روز میں بڑھتی مہنگائی ختم کرنے کا دعویٰ کررہی تھی اور کہا جارہا تھا کہ حکومت میں آتے ہی عوام کو فوری ریلیف فراہم کیا جائیگا،

لیکن اب سب سڈی ختم کیے جانے اور پٹرول‘ گیس‘ بجلی کی قیمتیںبڑھانے کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے،اس نے عوام کو جہاں مزید اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے ،وہیںاس حکومت سے بھی عوام کی اُمیدیں ایک بار پھر ٹوٹنے لگی ہیں۔یہ امر واضح ہے کہ موجودہ حکومت کو اسی طرح معاشی مسائل ورثے میں ملے ہیں

،جیسا کہ سابقہ حکومت کو ورثے میں ملے تھے، تاہم اس میں اتنا فرق ضرور دیکھائی دیتاہے کہ عمران خان کے پاس تجربہ کار ٹیم تھی نہ ہی مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح پالیسی، منصوبہ بندی دیکھائی دیتی تھی،لیکن اس کے برعکس میاں شہباز شریف نے جو کابینہ تشکیل دی ہے، اس میں زیادہ تر وہی پرانے تجربہ کار کھڑ پینچ قسم کے وزراء شامل ہیںکہ جو سابقہ حکومتوں میں بھی بطور وزیر خدمات سر انجام دے چکے ہیں

،اس کے ساتھ حکومتی اتحادی اقتدار میں آتے ہوئے بہتر منصوبہ بندی کے دعوئے بھی کرتے رہے ہیں، اس لیے عمران خان کے مقابلے میں میاں شہباز شریف حکومت سے عوام بجاطور پر زیادہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ سابقہ حکومت کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور ایسے اقدامات سے گریز کریں گے

کہ جو سابقہ حکومت کرتی رہی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حکومتی جماعتیں تمام تر حالات سے پہلے سے واقف ہونے اور ملک کی معاشی صورتِ حال کا مکمل ادراک رکھنے کے باوجود عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لے کر آئیں اور عمران حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے اقتدار سے نکالنے میں کامیاب ہوئی ہیں، اس لیے اب جو بھی معاشی یا سیاسی حالات ہیں،

ان کا سامنا کرنا ، نئی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے ،اس سے حکومت راہِ فرار اختیار کرسکتی ہے نہ اس کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال کر وقت گزاری کرسکتی ہے،موجودہ حکومت کو درپیش چیلنجز کھلے دل سے قبول کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ جن سے سیاسی ومعاشی بحرانوں پر قابو پایا جا سکے اور عوام کو فوری ریلیف میسر آ سکے،یہ اتنا آسان نہیں ہے ،جتنا کہ حکومت سے باہر بیٹھ کر اپوزیشن اتحاد کو دیکھائی دیے رہاتھا۔
حکومت میں آنے سے چند روزقبل ہی میاں شہباز شریف اور ان کے رفقاء عمران خان حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اس کی وجہ سے ملک کی معیشت تباہ حالی کا شکار ہوئی اور ملک قرضوں میں جکڑا گیا ہے،مسلم لیگ (ن )حکومت ان مسائل پر قابو پا کر عوام کو مشکلات سے نجات دلائے گی،مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت اب قائم ہو چکی ہے، تمام ادارے بھی ان کے تابع فرمان ہیں تویہ اب توقع کی جاسکتی ہے کہ حالات صحیح سمت پر آگے بڑھ سکیں گے، موجودہ حکومت سابقہ حکومت کی بچھائی گئی

سرنگوں کا واویلا مچا رہی ہے ،اگر سابقہ حکومت واقعی کوئی سرنگیں بچھا گئی ہے تو انہیں صاف کرنا، موجودہ حکومت کا ہی کام ہے،میاں شہباز شریف اور ان کی ٹیم درپیش مسائل سے جان چھڑا سکتے ہیں نہ اس کا بو جھ کسی دوسرے پر ڈال سکتے ہیں ،انہیں بہت ہی قلیل وقت میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرکے دکھانا پڑے گا،

ایسی شارٹ ٹرم پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی کہ جن پر عمل درآمد کے نتیجے میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرکے دکھائے جاسکیں ،اس بارے باہر بیٹھ کر باتیں کرنا بہت آسان تھا ،مگر حکومت میں کچھ کرکے دیکھنا انتہائی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں اپنے اور اپنی جماعت کے رہنمائوں پر قائم مقدمات کا خاتمہ، نیب کو نکیل ڈالنا ، ، عدالتوں سے اپنے حق میں کلین چٹ، حاصل کرنا اور آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے شفاف راستہ نکالنا شامل ہے ،لیکن اس کے ساتھ ان بقول اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک جو کانٹے سابقہ حکومت بکھیر گئی ہے، انہیں چننے کے ساتھ موافق حالات پیدا کرنا بھی انہیں کی ذمہ داری ہے

،موجودہ حکومت اپنے کیے گئے دعوئوں سے بھاگ سکتی ہے نہ خود پر ڈالی ذمہ داریوں سے جان چھڑا سکتی ہے ، جبکہ حکومت کے بعض اتحادی مقررہ مدت سے قبل عام ا نتخابات کا مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں ، معزول حکومت کا بھی یہی مطالبہ ہے، اس لیے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتوں کو اپنی بقاء اور آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے عوام کے مفاد میں فوری اور دیرپا اثرات کی حامل پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی،

اگر ایسا نہ ہو سکا تو سابقہ حکومت کی ساری ناکامی کا ملبہ موجودہ حکومت پر ہی آ گرے گا ، اس سے بچ کر آئندہ الیکشن میں جانا انتہائی مشکل ہو جائے گا،اس دفعہ انتخابات میں عوام ووٹ تبدیلی کے لیے نہیں، تبدیلی ہونے کی صورت میں ہی دیں گے اور یہ اعزاز و اکرام اسی کو ملے گا جو کہ تبدیلی کے چراغ نمایاں روشن کرے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں