36

لا پتہ افراد کی بازیابی کے دعوئے!

لا پتہ افراد کی بازیابی کے دعوئے!  

پاکستانی شہریوں کو درپیش مختلف النوع سنگین مسائل میں سب سے زیادہ انسانیت سوز مسئلہ کوئی وجہ بتائے بغیر لواحقین کو قطعی بے خبر رکھتے ہوئے کسی بھی شخص کا تفتیش کے نام پر اغواکرکے غائب کردیا جانا ہے،ملک بھر میں ایسے افراد کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے، اس معاملے میں صوبے بلوچستان سب سے زیادہ ہولناک ہے ،گزشتہ روزوزیر اعظم میاں شہباز شریف نے دورہ

بلوچستان کے دوران بلوچ عوام کو درپیش مسائل میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے معاملے کو پہلی ترجیح دیتے ہوئے اطمینان دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ متعلقہ بااختیار لوگوں سے اس مسئلے پر بات کرینگے اور اسے انصاف کی بنیاد پر حل کرائیں گے،لیکن اس دعوئے کو حقیقت بنتے دیکھنا ابھی باقی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان میںسب سے متنازعہ اور دیرینہ مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے،ملک بھر سے ہزاروں نوجوان غائب ہوگئے کہ جن کا آج تک کوئی سراغ نہیںمل سکا ہے ،ملک بھر میں لا پتہ افراد کے اہلِ خانہ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنتے پھرتے ہیں ، مگر ان کی ایوان کی راہداریوں سے لے کر عدالت عظمیٰ کے دروازوں تک کہیں کوئی سنوائی نہیں ہوسکی ہے ،عدالت عظمی ٓ کے کتنے ہی چیف آئے چلے گئے

، وزیراعظم کے عہدے پر بھی کتنے ہی چہرے بدل گئے،مگر ہر دور اقتدار میں لاکھ وعدئوں اور دعوئوں کے باوجود لاپتہ افراد کی باز یابی ہو سکی نہ اس سلسلے کو روکا جاسکا ہے ، اس معاملے کا حل کسی حکومت کے پاس نہیں ،ملکی دفاعی اداروں کے پاس موجودہے،اس کے باوجودمعاملہ حل نہیں کیا جارہا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لا پتہ افراد کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور اس پر بات کرتے ہوئے سب ہی کے پر جلنے لگتے ہیں ،لیکن اس معاملے کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا ،آخرکب تک کسی ماں سے اس کے جگر گوشے، کسی باپ سے اس کے بڑھاپے کے سہارے، کسی بیوی سے اس کا سہاگ

، کسی بچے سے اس کے سر کاسایہ اتنی سفاکی سے چھینا جاتا رہے گا کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے کہ ان کے پیارے کہاں اور کس حال میں ہیں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ پوچھ رہے ہیں کہ ان کے کھوئے ہوؤں کا قصور کیا ہے؟اگر وہ ملک دشمن ہیں، کسی عقوبت خانے میں قید ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ چلاکرگھر والوں کو بتائیں،

اگر کسی آپریشن میں مارے گئے ہیں تو بھی گھر والوں کو بتایا جائے، لاپتہ افراد کا معاملہ عالمی دباؤ کے ڈر سے دیکھا جائے یا پاکستانی آئین و قانون کی نظر سے یا پھر ایک محب وطن پاکستانی کے دل سے سوچیںتو ہر زاویے سے ایک ہی نتیجے پہ پہنچیں گے کہ اس معاملے کا مستقل حل نکالنا ہی پڑے گا۔
یہ امر حوصلہ افزاہے کہ موجودہ حکومت بھی دیگر حکو متوں کی طرح لاپتہ افراد کے معاملے کو اہمیت دے رہی ہے اور اس معاملہ کو حل کرنے کی خواہش مندہے ،لیکن اس حکومت کو لا پتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان ہی نہیں، پورے ملک کی بنیاد پر کم سے کم مدت میں حل کرانا چاہیے ،اس کے لیے ایسی مؤثر قانون سازی کی جانی چاہیے کہ جس کے بعد باضابطہ قانونی اجازت نامے اور لواحقین کے علم میں لائے

بغیر کسی بھی شہری کو کوئی ادارہ اپنی تحویل میں لے سکے نہ ہی غائب کر سکے ،اس وقت موجودہ حکومت کیلئے حالات انتہائی ساز گار نظر آرہے ہیں،ایک طرف عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو دفن کرکے دکھایا ہے تو دوسری جانب عسکری قیادت نے بھی اپنے اقدامات سے واضح کردیا ہے کہ اب اس کی جانب سے کبھی آئینی حدود سے تجاوز نہیں کیا جائے گا،اس ماحول میں لاپتہ افراد کے مسئلے کے مستقل اور منصفانہ حل کے

امکانات پہلے سے زیادہ روشن ہوگئے ہیں ،حکومت کو لا پتہ افراد کی بازیابی پر بیان بازی کرنے کی بجائے بلا تاخیراس سمت عملی پیش رفت کرنی چاہیے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں بلوچستان کوجس طرح نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، اس کی تلافی کی یہی صورت ہے کہ اسے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کیلئے جہاں خصوصی اقدامات کئے جائیں،وہیں مقتدر اداروں کے تعاون سے

لا پتہ افراد کا معاملہ بھی ہمیشہ کیلئے سلجھا لیا جائے ،اگر بلوچستان میں امن ہو گا تو پا کستان میں بھی امن ہو گا ، بلو چستان کا امن لا پتہ افراد کی باز یابی سے جڑا ہے ، اس پر اب مزید بیان بازی نہیں چلے گی، وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی دیگر وزرائے اعظم کی طرح بلوچ عوام کو یقین دلایا ہے کہ لاپتا افراد کا مسئلہ ان کی اولین ترجیح ہے، لیکن اس دعوئے کو حقیقت بنتے دیکھنا ابھی باقی ہے، اس سمت میں واقعی کوئی عملی پیش رفت ہو پائے گی ،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں