47

زندگی کا سب سے بڑا سچ

زندگی کا سب سے بڑا سچ

چودھری اورنگزیب/اتحاد

زندگی جیسی قیمتی شے کوئی نہیں ،اس ایک زندگی میں عیش کے وہ وہ دلکش نظارے ہیں کہ یہ پورا وجود بھی نظر بن کے دیکھتا رہے تو خاتمے پر یوں محسوس ہوگا کہ جیسے ابھی توایک ہی پلک جھپکی تھی۔جب آپ کے پاس بہت آسائشیں ہوں،مال و دولت بھی بے پناہ اور وسائل بھی خواہشات سے کہیں بڑھ کر ہوں،پھرایک ایک لمحے کو عیش و عشرت کے رنگین چمن زار وںمیں جئیں،

تو بھی دم آخر حسرت ہی رہے گی کہ ابھی تو بہت کچھ باقی تھا جس کی خوشبو سے ذہن و دل کو سیراب کرنا تھا۔مغل بادشاہ بابر نے کہا تھا کہ بابر عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست،خواہشات کے غلاموں کی یہی آخری ہچکی ہے اور یہی کھلی آنکھوں میں جمی ہوئی ناکام حسرت۔زندگی کو اکثر اسی زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔یہی سوچ ہمارے شب و روز کو لیے آگے بڑھتی ہے اور ہمیں خواہشات کا غلام بنا دیتی ہے۔

اس اسیری میں سوچوں پر تمام پہرے ہماری خواہشات کے ہوتے ہیں جو انہیں ایک خاص دائرے سے نکلنے ہی نہیں دیتیں۔ہم وہ سب کرتے ہیں جو ہماری خواہشات چاہتی ہیں۔قدم ہمارے چلتے ہیں لیکن رستوں کا تعین یہی خواہشات کرتی ہیں۔ہمارے جسم کا ہر عمل انہی خواہشات کا غلام بن کر معاشرے میں زہر بھی گھولتا ہے

اور دوسروں کے حقوق کا قتل بھی کرتا ہے۔میں نے دنیا کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔اس کے بدلتے رنگ بھی دیکھے اور وہ رنگین فریب بھی،جن میں دوست آستینوں میں خنجر لیے ملتے ہیں۔رنگ بدلتی اس دنیا کے ہر بھید میںکئی بھید پوشیدہ ہیں اورہر دھوکے میں جانے اور کتنے دھوکے موجود ہیں جو دکھائی ہی تب دیتے ہیں جب وار کرنے والا بہت دور نکل چکا ہوتا ہے۔ آپ اپنی خواہشات کی غلامی کرتے ہوئے دوستی،

محبت اور اعتماد کا خون کرسکتے ہیں۔آپ کو شارٹ کٹ کے ذریعے کامیابی کے مواقع بھی بہت ملیں گے کہ اپنے کسی محسن کی گردن پہ پائوں رکھتے ہوئے آگے بڑھ جائیں ۔آپ کی خواہشات یہ بھی کہیں گی کہ منزل سامنے ہے،بڑھو اور اپنی زندگی کو اپنے ڈھنگ سے جی لو۔ بڑے بڑے محلات،دنیا بھر کی آسائشیں آپ کے قدموں کی خاک بھی ہوسکتی ہیں۔یہ سب ہو سکتا ہے اور میں نے یہ سب ہوتے ہوئے دیکھا بھی ہے۔لوگ آگے بڑھنے کے لیے رشتوں کی پہچان سے لے کر احترام تک، سب کچھ بھول جاتے ہیں

۔دیپالپور کے ایک چھوٹے سے گائوں سے لاہور تک کے میرے اس سفر میں ہزاروں ایسی مثالیں ہیں جن میں لوگ دھوکے اور فریب کی چالیں چلتے ہوئے کامیاب ہوئے اور بظاہر دنیا بھی کمالی۔دوسروں کا رزق چھیننے والے،حق مارنے اور قبضہ جمانے والے کتنے ہی لوگ تھے ،اور ہیں جنہیں میں نے بڑے بڑے گھر اور بلند عمارتیں بناتے دیکھا۔وہ سب بظاہر کامیاب ہیں،دنیا کی آسائشیں ان کی دسترس میں ہیں۔وہ جو چاہے

خرید سکتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس سب کچھ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کے پاس تو نظر کے دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔وہ ایک ایسے فریب میں جی رہے ہیں جو انہیں حقیقت دیکھنے ہی نہیں دیتا۔وہ زندگی کی آخری سانس تک اسی فریب اور دھوکے میں جیتے ہوئے سمجھ ہی نہیںپاتے کہ وہ جسے منزل سمجھے بیٹھے ہیں یہ تو سراب اور فریب تھا۔زندگی جینے کاایک دوسرا ڈھنگ بھی ہے۔اس میں آپ کوئی خواہش نہیں کرتے اور خود کو اللہ کے بندوں کی خدمت پر مامور کردیتے ہیں۔

آپ رزق تلاش کرنے یا چھیننے کے بجائے اسے تقسیم کرنے لگتے ہیں۔دوسروں کی گردن پر پائوں رکھ کر آگے بڑھنے کے بجائے کمزروں کی بیساکھی بن جاتے ہیں۔اپنے لیے آسائشیں ڈھونڈنے کی جگہ دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔اپنا محدوددستر خوان بھرنے کے بجائے اپنا دستر خوان وسیع کرلیتے ہیں۔آپ اللہ کی مخلوق کے بجائے براہ راست اللہ سے کاروبار کرتے ہیں

۔آپ اس کے دئیے ہوئے رزق سے دوسروں کو سیراب کرتے ہیں اور وہ آپ کے خزانے کو ہزار سے ضرب دے کے بھرتا جاتا ہے۔آپ ایک ہاتھ سے ایک بار بانٹتے ہیںاور پھر دونوں ہاتھوں سے اتنا سمیٹتے ہیں کہ ذخیرہ کرنے کی جگہ نہیں بچتی۔یہ سچا سودا ہے، سچ پوچھئے تو بس یہی منافع کا کاروبار بھی ہے۔باقی سب فریب اور جھوٹ ہیں،سراب ہیں اور بے تعبیر خواب کا دھوکہ ہیں۔
میں جب دیپالپور سے لاہور آیا تو میرے پاس والد مرحوم کی اس نصیحت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا کہ بیٹا کاروبار کرنا تو دونوں جہانوں کے مالک سے کرنا،وہ جو سخی بھی ہے اور غفور و رحیم بھی۔

جو کبھی حساب نہیں کرتا،جب بھی دیتا ہے بے حساب دیتا ہے۔میں نے اسی نصیحت کو زندگی کا منشور بنایا اور جس مٹی میں ہاتھ ڈالا ،وہ سونا بن گئی۔میں نے کسی کاروبار میں سچ کے نام پہ دھوکہ نہیں بیچا،جو تھا وہی بتایا اور اسی کا سودا کیا۔میں نے اپنا رزق اور دستر خوان اللہ کے بندوں کے ساتھ بانٹ لیے،

اگلا کام میرے رب کا تھا۔اس نے ہر راہ آسان بنا دی ۔میں نہیں جانتا کہ میرے دسترخوان پہ بیٹھے کس اللہ کے بندے کے رزق کی برکت سے یہاں ہزاروں گھروں میںایسی فراوانی ہوئی کہ یہ ایمان پختہ ہوتا چلا گیا کہ وہ اپنی مخلوق کے خادموں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔پھر آپ کا ہر دن عید کادن بن جاتا ہے۔وہ آپ کے مسائل کا حل اپنے ذمے لے لیتا ہے ،دنیا آپ کے قدموںمیں ہوتی ہے۔میں نے آج کے کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ زندگی جینے کا پہلا ڈھنگ سب کچھ سمیٹ کر خواہشات کی غلامی کرنا ہے

جس میں آدمی سراب کے پیچھے بھاگتا بھاگتا آخر مایوسی کے صحرا میں ایڑھیاں رگڑ تا ہوا مرجاتا ہے۔اور سے بڑھ کر اور کی ہوس ، لالچ کا لامحدود سلسلہ زندگی سے چین ،سکھ اور سکون کی دولت چھین لیتا ہے۔یہ دولت اگر ملے گی تو اس فقیر کے پاس، جس نے اپنی روکھی سوکھی روٹی بھی دوسروں کے ساتھ بانٹ لی ۔جس نے دنیاداری کے بجائے دین داری کے اصولوں کو اپنا لیا۔جس نے اللہ کے بندوں کا رزق چھیننے کے

بجائے اپنا رزق ان کے ساتھ بانٹ لیا۔یہی زندگی کا فلسفہ ہے اور یہی حقیقی کامیابی بھی۔آپ اپنی مرضی خواہشات کے بجائے اپنے رب کے تابع کردیجیے،وہ آپ کی خواہشات کو آپ کا غلام بنا دیگا ۔وہ آپ کو وہاں وہاں سے عطا کرے گا جہاں سے آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ایک درویش کی سوچ اپنا لیجیے ،کامیابی آپ کی چوکھٹ پہ بیٹھی خود آپ کے حکم کی منتظر ہوگی۔یہی میرے رب کے کرم اور عطا کا سچ ہے جس کے سوا سب فریب اور جھوٹی تسلیاں ہیں۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں