42

کیا بھارت معشیتی طور کنگال ہونے کی راہ پر گامزن ریڈ زون ملک ہے؟

کیا بھارت معشیتی طور کنگال ہونے کی راہ پر گامزن ریڈ زون ملک ہے؟

نقاش نائطی
۔ 966562677707+

اپنے وقت کی سونے کی چڑیا مشہور، مضبوط بھارتیہ معشیت، سری لنکا کی طرح،کیآ معشیتی تباہی و بربادی کی کگار پر نہیں ہے؟
سو سالہ آرایس ایس بی جے پی نے، صرف اور صرف سیاسی اقتدار کے نشے لوٹنے میں مست، 2014 سے پہلے والی من موہن سرکار کی تیز تر ترقی پزیر معیشیت کو، نوٹ بندی، اور نفاذ جی ایس ٹی، اپنے ناعاقبت اندیش معشیتی فیصلوں سے، اپنے وقت کی سونے کی چڑیا بھارت کو،اپنے7 سالہ دور حکومت میں ہی، عالمی سطح پر چھوڑئیے، اپنے آس پڑوس کے غریب و پس ماندہ ملک پاکستان، بنگلہ دیش یہاں تک کہ آج معشیتی طور تباہ ہورہے سری لنکا سے بھی معشیتی طور، بھارت کو پچھڑا تباہ و برباد کر چھوڑا ہے

۔ اور اپنی معشیتی حکومتی ناکامیوں سے بھارت کی عوام گمراہ کئے رکھنے کے لئے ہی، اس دیش کی سب سے بڑی اقلیت ، آبادی کے پانچویں حصہ ہم کم و بیش 15 سے 20 فیصد، 28 سے 30 کروڑ ہم مسلمانوں کو،جو ایک ہزار سال سے، اس ملک چمنستان بھارت کی گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے،

نہایت محبت اخوت ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ یہ سنگھی حکمران اپنی فاش معشیتی تباہ کن، غلطیوں سے دیش واسیوں کو انجان رکھنے کے لئے، ہم مسلمانوں کے، نساء حجاب و لاؤڈ اسپیکر اذان جیسے غیر ضروری مسائل کو اچھال اچھال کر، ہم ھندو مسلمانوں کو آپس میں لڑواتے ہوئے،بھارت دیش کو ترقیات کی پٹری سے اتار کر،بھارت کی معشیت کو تاراج و تباہ کررہےہیں۔

اپنے دشمن پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ لڑکر اسے دو لخت ٹکڑوں میں بانٹ، اسے کمزور کرتے ہوئے، اپنی کوششوں سے بنگلہ دیش کو عالمی نقشہ پرابھرنےکا موقع دینےوالے ہم 140 کروڑ بھارتی، کل 50 سال قبل، ہمارے مکمل تعاون کے ساتھ وجود پانے والے، اور صدا سمندری سیلاب سے تباہ ہوتے رہنے والے،

غریب و پس ماندہ ملک بنگلہ دیش کو، جس نےاپنی حکومتی حکمت عملی سے، معشیتی طور اتنی ترقی کرلی ہے کہ سونے کی چڑیا مشہور اپنے وقت کا وشال ملک، ہم بھارت واسی، بنگلہ دیش کی ترقیات کو صرف رشک بھری نظروں سے دیکھ سکتے ہیں،اس کے قریب تر ہونے کی کوشش کرتے رہ جاتے ہیں، ابھی کچھ دنوں قبل اپنے معشیتی زبوں حالی سے کنگال و تباہ حال ہوتے بنگلہ دیش کی معشیتی حالت، انکے اپنے جی ڈی پی کا بھارت کے جی ڈی پی سے تقابل کریں تو، سری لنکا کی معشیت بھارت سے ہر اعتبار سے بہتر ہے

۔ پھر بھی سری لنکا کے عالمی سطح پر دیوالیہ ہوتے، پیش آتے پس منظر کے پیچھے، سری لنکا حکومت کا عالمی سطح پر معشیتی مضبوط ترین پڑوسی ملک چائینا سے قربت کی سزا، چائینا کے ازلی دشمن صاحب امریکہ کے،اپنے سربراہ عالم کےتاج تمکنت کی بقاء کی جنگ میں، عالمی مالیاتی اداروں کی مدد سے، سری لنکن حکومتی اراکین کی خرید و فروخت سے، صاحب اقتدار، راجا پکشاحکومت کوگرانے ہوئے،

اپنے اشاروں پر ناچنے والے حکمرانون کو، اقتدار پر لاتے ہوئے، چائینا کو زک پہنچانے کی کوشش میں، سری لنکا حکومت کو معشیتی طور تباہ کرتی امریکی سازش ہے تاکہ بھارت پاکستان سمیت کوئی بھی کمزور ملک، امریکہ کے خلاف چائینا کے پالے میں جانے کی ہمت نہ کرسکے

پڑوسی دشمن ملک پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے اپنے اسپورٹس مین شپ نظریات کے تحت، صاحب امریکہ کے حکم کو ماننے سے صریح انکار کرتے اور امریکی دشمن روس و چائینا سے قربت اختیار کرنے کی سزا، کس طرح منتخب اراکین کی خرید و فروخت کر، صاحب امریکہ نے عمران خان حکومت کو بے دخل کیا ہے، یہ کسی بھی عقل و فہم و ادراک رکھنے والوں سے مخفی عمل نہیں ہے۔

اس امریکہ و روس/ چائینا درمیان عالم کی سربراہی کی جنگ میں، اپنے طور ترقی پزیر یورپی آزاد ملک یوکرین کی تباہی و بربادی بھی عالم کے سامنے ہے۔ ہر کسی کو عروج و زوال سے دوچار ہونا ہی ہے، عالمی ارباب حل و عقل و فہم کے تجزیات، کچھ دہوں بعد صاحب امریکہ کے زوال کے اشارے جہاں کرتے ہیں، وہیں عالم پر اپنے معشیتی گرفت کے ساتھ عالم کے سربراہی کی دوڑ میں چائینا کو سب سے آگے سب بتاتے ہیں۔

ایسے میں سابقہ سو سالہ عالم پر حکمرانی کی امریکی کوششوں میں، ہم مشرقی ملکوں کو ترقی پزیری سے روکنے کی امریکی و مغرب کی جہد تسلسل کے خلاف، آج نہیں تو کل بھارت سری لنکا پاکستان بنگلہ دیش جیسے مشرقی ممالک کو، مغربی ممالک کی غلامی سے مبراء، اپنی آزاد حکومتی پالیسیز کو وضع کرنا، وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسے میں تین ساڑھے تین سو سال قبل مغل حکمران اورنگ زیب کے پچاس سالہ زمام اقتدار میں،اپنے 27% جی ڈی پی کے ساتھ عالم کی اس وقت کی سب سے مضبوط معشیت،

سونے چڑیا مشہور بھارت، سو ڈیڑھ سالہ برٹش حکومتی لوٹ کھسوٹ و کنگال غریب و مفلس کر 1947 آزاد کر دئیے جانے کے باوجود،آل انڈیا کانگریس حکومت نے اپنے پینسٹھ سالہ کانگریس راج میں، اپنی پانچ سالہ معشیتی ترقیاتی حکمت عملی کے ساتھ،بھارت کو 2014 تک جس طرح سے تیز تر ترقی پزیر معشیت میں تبدیل کردیا تھا کہ عالمی معشیتی اذہان و ارباب عقل و فہم و ادراک، زوال امریکہ بعد 2030 سے 2050 تک بھارت میں عالمی سربراہی کا دم و خم تلاش رہے تھے۔ یہ ہم بھارت واسیوں کی بدقسمتی اسے تصور کریں کہ، ہم نے بھارتی معشیت کو سب سے تیز ترقی پزیری کی پٹری پر دوڑانے والے

عالمی سطح پر، معشیتی استاد تسلیم ڈاکٹر منموہن کو نکار کر، صرف اور صرف 20% ہم مسلم اقلیت کو زک پہنچانے لائق، مسلم دشمنی میں یکتا، قاتل گجرات کے ہاتھوں میں، اپنے وقت کی تیز تر ترقی پزیر معشیت بھارت کا اقتدار کیا دیا؟ کہ،آج آرایس ایس، بی جے پی سنگھی مودی راج کے 7 سالہ زمام اقتدار بعد، ہم 2014 سے پہلے والے تیز تر ترقی پزیر بھارت کو، اپنے پڑوسی غریب و پس ماندہ ممالک پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش سے بھی پچھڑا، ہم بھارت کو پاتے ہیں۔بھارت کی جی ڈی پی سے دگنی جی ڈی پی والے ملک میں یہ معشیتی بحران مسلم دشمن راجا پکشا حکومت کی نااہلی سے زیادہ،

چائینا دشمنی میں صاحب امریکہ کو مشرقی ممالک کو متنبہ کرنے کی خاطر، عالمی مالیاتی اداروں کی مدد سے، سری لنکن معشیت کو برباد کرتی وقتی سازش ہے،جو تعلیم یافتہ سری لنکن عوام کی سیاسی آگہی کے باعث، انکے ملک کو لوٹنے والے راجا پکشے حکومتی ٹولے کے خلاف عوامی احتجاج کی وجہ سے، عالم کے سامنے آرہا ہے۔ اتنی معشیٹی تاراجی کے باوجود سری لنکن معشیت سونے کی چڑیا مشہور بھارت کی معشیت سے بہتر ہے اور یقینا سری لنکن معشیت آج نہیں تو کل سنبھل جائیگی لیکن

ھندو ویر سمراٹ مہان مودی مودی کی ناعاقبت اندیش معشیتی و مسلم دشمنی پر مبنی، حکومتی پالیسیز سے، بھارت معشیتی طور انحطاط کا شکار جس طرح سے ہورہا ہے، کل کو مہان مودی کے کہے ان کے اپنے جملے،”ہم تو فقیر ہیں کبھی بھی اپنا جھولا اٹھائے کہیں بھی چلے جائیں گے” بھارتیہ معشیت،مکمل تاراج کرکے ایک نہ ایک دن مودی جی کے بھاگ جانےکے بعد، تباہ و برباد بھارتیہ معشیت کے لئے، ایک لمبے عرصے تک روتے پچھتاتے بیٹھنے کے بجائے، بھارت کے سول سوسائیٹی ارباب حل و عقل و فہم ، وقت رہتے اس وناش کاری،آر ایس ایس بی جے پی سنگھی مودی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج سڑکوں پر نہیں نکلیں گے تو، ہم بھارت کو مکمل تباہ و برباد ہونے سے بچا پانے میں ناکام، یہ گنگناتے ہی رہ جائیں گے کہ “اب پچھتاوے کیا ہوؤت، جب چڑیا چمنستان گئی کھیت؟”

آج بھارت کے لاکھوں اعلی تعلیم ہافتہ سول سوسائیٹی افراد کے سامنے صرف اور صرف ایک ہی سوال ہونا چاہئیے کہ آر ایس ایس بی جے پی مودی کے ہاتھوں، بھارت کی تباہ و برباد ہوتی معشیت کو کس طرح مزید تباہ و برباد ہونے سے بچایا جائے؟ کیا بھارت کی تباہ و برباد ہوتی معشیت کو بچانا بھارت واسیوں کے لئے اہم ہے؟ یا مسلم نساء حجاب اور لاوڈ اسپیکر آذان جیسے غیر اہم موضوعات کو اپنے بکاؤ بھونپو میڈیا پر اچھال اچھال، بھارتیہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث پر ھندو راشٹر کے قیام کی سوچ سامنے لا، ھندو مسلمانوں کو لڑواتے ہوئے، سری لنکا کی طرح بھارت کو مزید تباہ و برباد ہونے دینا ترجیحی عمل ہے؟ کیا بھارت کے 30 کروڑ مسلمانوں کو ھندو راشٹر بھارت میں، غلام بنائے رکھنا، کیا

اتنا آسان عمل ہے؟ کیا اس کوشش میں بھارت کو ھندو مسلم منافرت پروان چڑھتے خانہ جنگی کی طرف رواں دواں معشیتی طور مکمل تباہ و برباد ہوتے، ھندو راشٹر بنا بھارت، کیا دیش کی اکثریتی ھندو برادری کو قبول ہے؟ کیا دیش کی ھندو اکثریت، ھندو برادران نے، کورونا فیس ٹو دوران،انکے اپنے ھندو ویر سمراٹ مہان مودی یوگی کی نااہلی کے سبب، 50 سے 60 لاکھ ھندوؤں کی اکثریت کو، آکسیجن و کورونا دوائی کے لئے تڑپتے سسکتے، دم توڑتے مرتے اور شمشان گھاٹ میں انکےاپنوں کی لوٹ کھسوٹ سے، تنگ آئے

، اپنوں کے پارتو شریر کو گنگا میں بہانے مجبور یا اپنوں کے انتم سنسکار سے ماورا، انہیں گنگا کنارے رہت میں دبا، بعد میں گنگا میں بہتے ان کے اپنوں کے پارتو شریر کو، گدھ، کوؤں، کتوں کے بھنبھوڑ کھاتے مناظر، ھندو بھائیوں کو کیا یاد نہیں ہیں؟ کورونا مہاماری دوران، انکے اپنے ھندو رکھشک،آرایس ایس، بی جے پی کے لاکھوں کروڑوں کاریہ کرتا، سیاسی گلیاروں میں اپنی اپنی پہنچ کے اعتبار سے،

دوائیاں اور آکسیجن سلنڈر یہاں تک ہاسپٹل بیڈ تک کی کالابازاری کئے ھندو عوام کولوٹنے میں۔مست تھے تو ،مسلم دشمن مشہور گجرات سمیت دیش کے انیک ریاستوں شہروں میں ہم مسلم لاکھوں رضاکاروں نے، نہ صرف مختلف این جی اوز قائم کر، کورونا دوائیاں اور آکسیجن سلنڈر ھندو بھائیوں کو فری سپلائی کئے تھے، بلکہ ممبئی بنگلور سمیت کئی شہروں کے ہم مسلمانوں نے، کورونا کی وجہ سے بند اپنی مساجد کو عارضی شفاخانوں میں تبدیل کرتے ہوئے، انسانیت کی خدمات کی تھیں۔ کورونا جیسی متعدی بیماری سے خوف کھائے

ہزاروں ھندو بھائیوں کو، بعد موت انکے اپنے سگے بھائیوں بچوں نے انتم سنسکار سے منع کیا تھا تو، مسلم رضا کار نوجوانوں کے،انکے پارتوشریر کوانٹم سنسکار کرتے لمحات کو،اس دیش کے ھندو برادران وطن کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟
ہر معاشرے میں کچھ فیصد مطلبی قوم و وطن کو لوٹنے والے سیاست دان ہوتے ہیں۔لیکن آیا ایس ایس بی جے پی کے سیاست سے منسلک افرادی اکثریت خود انکے اپنی ھندو قوم کو لوٹتی پائی گئی تھی اس کا ثبوت کورونا مہاماری دوران اس دیش کی ھندو اکثریت کو بخوبی ہوچکا ہے۔ ایسے میں سنگھی سیاست دانوں کے اور انکئ بھونپو بکاؤمیڈیا کے علی الاعلان نساء ژیان و لاؤڈ اسپیکر اذان کے بہانے دیش میں مسلم مخالف نفرت پھیلانے پس منظر میں، خاموش تماشائی بنی یہ مسلم منافرتی تماشہ دیکھتی ھندو اکثریت کے برتاؤ سے

اس دیشی مسلم اقلیت واقعتا صدمے میں ہے۔کیا واقعی اس دیش کی ھندو اکثریت مسلم دشمن سنگھیوں کے اس مسلم منافرتی کھیل میں، برابر کی شریک ہے؟ کیا انکا یوں ان مذہبی سنگھی جنونیوں یا یہ حیوانیت آمیز مسلم منافرتی کھیل خاموش تماشائی بن دیکھنا، ایک طرح سے ان وحشی سنگھی درندوں کی حمایت کےمترادف عمل تو نہیں ہے؟ یہ اب ھندو برادران وطن کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس ہزاروں سالہ بھارت کی گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث کو باقی رکھتے ہوئے، بھارت کو سری لنکا کی طرح تباہ و برباد ہونے سے بچانا چاہتے ہیں؟ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں