42

عوام کب کھوٹے کھرے کی تمیز سیکھیں گے

عوام کب کھوٹے کھرے کی تمیز سیکھیں گے

پا کستانی سیاسی قیادت کا درینہ مطالبہ رہا ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے ،فوجی قیادت نے بھی فیصلہ کرلیا کہ سیاسی قیادت کے اصرار کے باوجود سیاست میں مداخلت نہیں کرے گئی ،لیکن سیاسی قیادت اپنی عادت سے مجبور ایک طرف مداخلت نہ کرنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب خودہی سیاست میں گھسیٹنے سے باز نہیں آر ہے ہیں، سیاسی قیادت ہر مشکل مرحلے پر فوج کو مدد کیلئے پکارتے ہیں

اور بعدازاں ان کے کلاف باتیں بھی کرتے ہیں، ایک سیاسی جماعت کے سر برہ کی جانب سے چند روز قبل ہی عساکرپاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے غیر مناسب الفاظ استعمال کیے گئے ،اس کی گونج ابھی باقی تھی کہ حکومت کے بعض عہدیدارآرمی چیف کی تقرری کے معاملے کو لے بیٹھے ہیں اور اس معاملے پر حکمران پارٹی کی باہر بیٹھی قیادت بھی کھلے عام رائے زنی کرتے نظر آرہے ہیں، سیاسی قیادت کا ایسا رویہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب فوج سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہتی ہے تو سیاسی قیادت اسے بار بار مخاطب کرکے شک وشبہات کو ہوا دینے کی کوشش کیوں کررہے ہیں؟
یہ امر واضح ہے کہ سیاسی قیادت فوج کی پشت پناہی کے بغیر اقتدار میں کبھی آئی نہ حکومت چلانے میں کا میاب ہو ئی ہے ،تاہم ہر سیاسی قیادت کی خواہش رہی ہے کہ یہ دست شفقت صرف ان ہی کے سر پر قائم رہے ، لیکن جب دست شفقت اپنی جگہ بدلتا ہے تو اس کے خلاف باتیں شروع ہو جاتی ہیں،پاک فوج کے ترجمان نے پہلے بھی متنبہ کیا ، ایک بار پھر تنبیہ کرنا پڑی ہے کہ سیاسی قیادت فوج سے متعلق متنازع بیانات سے اجتناب کرے،

آرمی چیف اور کورکمانڈر پشاور کے حوالے سے سینئر سیاستدانوں کے بیانات انتہائی نامناسب رہے ہیں، ایسے بیانات فوج کے مورال پر منفی اثر ڈالتے ہیں، ایک عرصے سے تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور بار بار درخواست بھی کر رہے ہیں کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، سیاسی گفتگو کا حصہ نہ بنایا جائے،لیکن اس بار بار تنبیہ کے باوجود سیاسی کانوں پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آرہی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فوج کا سیاست میں ایک اہم کردار رہا ہے اور اس نے اپنا کردار اتنے اچھے طریقے سے نبھایا ہے کہ اب سیاسی قیادت یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ اس نے سیاست میں مداخلت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے ، اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے کہ فوج نے سیاست سے دور رہنے کا باقاعدہ فیصلہ کر لیا ہے، اللہ انہیں اس فیصلے پر عمل کرنے کی ہمت دے، بہرحال جو کام پاکستانی

سیاست میں برسہا برس سے ہوتا رہاہے ، اس سے الگ ہونے میں اور اس پر یقین کرنے میں کچھ وقت توضرور لگے گا،اس طرح ہی سیا سی قیادت کے رویئے تبدیل ہونے میں بھی وقت درکارہے ،لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ موجو رہے گا کہ کورکمانڈر سے لے کر آرمی چیف کی تقرر ی تک کے بارے بیانات کیوں دیئے جارہے ہیں؟
یہ بات کسی سے پو شیدہ نہیں کہ اس کام کا ایک الگ فورم ہے اور اس پر وہیں بات ہونی چاہیے ،لیکن عام پبلک میں بیان بازی سے ایسا لگ رہاہے کہ یہ سیاستدان اپنی لڑائی نہیں، کسی دوسرے کی لڑائی لڑ رہے ہیں، جیسا کہ بلاول زرداری نے کہہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد سے ایک رات قبل مارشل لا کی دھمکی دی گئی تھی،

اگریہ بات بلاول کہہ رہے ہیں اور قومی اسمبلی میں کہہ رہے ہیں تو ان سے ضرور پوچھا جائے کہ کس نے دھمکی دی تھی،یہ دھمکی کسی نہ کسی کے اشارے یا اجازت سے ہی دی جا سکتی ہے،یہ کسی عام وزیر کی مجال نہیں ہے کہ مارشل لا جیسے بڑے اقدام کی دھمکی ازخود دے ڈالے، اسی طرح مریم نواز کا بے سروپا قسم کا بیان قابل کرفت ہے کہ پاک فوج کا سربراہ بے داغ اور اچھی شہرت کا حامل ہونا چاہیے، جبکہ بیان بازی کرنے والی قیادت خود بے داغ اور اچھی شہرت کے حامل نہیں ہے۔
اس وقت ملک کسی باہمی انتشار کا متحمل نہیںہو سکتا ،مگر سیاسی قیادت کی جانب سے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انتشار کی فضا بنائی جارہی ہے ، اس مشکل صورت سے باہر نکلنے کا ایک ہی واحدراستہ ہے کہ فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے اور دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان تمام سیاستدانوں کے بجائے ان سیاستدانوں کے نام لے کر سخت تنبیہ کرے کہ جو فوج اور اس کے سربراہ کے بارے میں متنازع بیانات دے رہے ہیں،

تا کہ اصل سازشی لوگ سب کے سامنے آجائیں اور انہیں نکیل بھی ڈالی جاسکے،فوج جب تک اپنے خلاف بیان بازی کرنے والوں کو ہلا شیری دینے کی بجائے نکیل نہیں ڈالیں گے، تب تک اداروں پر زبان دارزی ہوتی رہے گی ،اس کے ساتھ عوام کے سوچنے کے لیے بھی ایک اہم بات ہے کہ کب تک آزمائے کو آزماتے رہیں گے ،کب تک چھوٹے وعدوں ،دلاسوں کے سہارے مفادپرستوںکے پیچھے لگے رہیں گے ، آخرکب اچھے ، برے، کھوٹے اور کھرے میں تمیز سیکھیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں