61

چولستان ،سسک رہی ہے زندگی جہاں

چولستان ،سسک رہی ہے زندگی جہاں

تحریر:از کومل شہزادی

پانی کے بغیر دنیا کی خوبصورتی اور رنگینی کا تصورکیا جاسکتاہے اور نہ ہی انسانی وجود کا۔انسانی جسم کی بناوٹ میں پانی کا ہے۔ قرآن حکیم نے پانی کے بغیر انسانی زندگی کو ناممکن قرار دیا۔اگر پانی کی اہمیت کو جاننا ہے تو پھر ریگستان میں رہنے والے یا پہاڑوں پر بسنے والوں سے پتہ کرنا چاہیے۔چولستان کو پیاس و افلاس کا صحرا کہا جاتا ہے ۔ پانی کی قلت کے باعث چولستان میں موت رقص کر رہی ہے۔ چولستان کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں جانور پیاس سے مر گئے ہیں۔کربلا کا منظر دیکھنا ہوتو چولستان چلے جائیں۔

چولستان پنجاب کا اہم صحرا ہےچولستان کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں جانور پیاس سے مر گئے ہیں۔چولستان کے بارے میں خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں کیا خوب ذکر کیا تھا:

یار فرید اوتھے کیہ وسنا
جتھے گھٹ پانی نہ لبھے

یہاں کے مقامی لوگ خانہ بدوش ہیں جو صحرائے چولستان کے ٹوبھوں کے گرد اپنا مسکن بناتے ہیں۔ ٹوبھا پنجابی زبان میں پانی کے تالاب کو کہتے ہیں۔ برسات کے دنوں میں یہ ٹوبھے پانی سے بھر جاتے ہیں بارش نہ ہونے کی وجہ سے تالاب خشک ہو چکے ہیں پینے کا پانی نہیں ہے بہت سے جانور جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔چولستانیوں کا جینا مرنا اُن کے مویشیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مویشی خوش تو چولستانی خوش۔ مویشیوں کے ریوڑ کا حجم اُن کی سماجی اور معاشی درجہ بندی کرتا ہے۔ اچھی پرورش پر ریوڑ بڑھتے ہیں اور درجے بھی۔
چولستان میں بارشیں نہیں ہوئی اور شدید گرمی کا موسم بھی شروع ہو چکاہے ٹوبے خشک ہو چکے ہیں تو پھر بروقت اقدامات کیوں نہیں کیے گئے ہمیشہ جانی و مالی نقصان کے بعد ہی یہ ادارے حرکت میں کیوں آتے۔
خشک سالی اور پانی کی شدید قلت کی وجہ سے انسان اور جانور دونوں پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں ۔

ہونٹ پیاسے رہے حوصلے تھک گئے عمر صحرا ہوئی

ہم نے پانی کے دھوکے میں ریت میں کشتیاں ڈال دیں

پیاس کی شدت کی وجہ سے روز انہ جانور وں کی بے شمار تعداد میں اموات ہو رہی ہیں۔بارشیں نہ ہونے سے تالاب مکمل طور پر خشک ہوگئے ہیں، جس کے باعث مقامی افراد پینے کے پانی سے بھی محروم ہورہے ہیں۔
چولستان کے حقوق کی آواز اٹھانے پر خوشامد پسند ٹولہ ہمیشہ سے رکاوٹ ہے چولستان کی بد نصیبی ہے۔افسوس کا مقام ہے ہمارے سرکردہ شخصیات کے لئے جو حقائق کو جانتے ہوئے بھی حقائق پر بات کرنے سے قاصر ہیں۔چولستان میں بڑے بڑے قومی رہنماؤں اور سرمایہ داروں کے رقبے ہزاروں ایکڑ پر مشتمل موجود ہیں جنمیں سرفہرست اول نام جہانگیر خان ترین صاحب کا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے

کہ آخر ادارے اور انتظامیہ اتنے غیر ذمہ دار کیوں ہیں۔بڑھتی ہوئی گرمی کی شدت اور درجہ حرارت کے مطابق محکمہ موسمیات سے رہنمائی لیکر خشک سالی سے قبل انتظامات کیوں نہیں کیے گئے ہیں۔آخر ایسے لوگوں کی صورت حال اور پانی کی بوند کو ترسنے والے وہ لوگ کیا سمجھیں گے جو خواب خرگوش میں مبتلا ہیں

اور ائیر کنڈیشن سے باہر نکلنا جن کے لیے ناممکن سا ہے ۔‏حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا دور بھی کمال تھا، کیا سنہری دور تھا کہ ایک خط لکھا اور دریا بھی چل پڑا۔ایک ویڈیو دیکھی جس میں مری ہوئی بھیڑوں کو ایک شخص پھینک رہا تھا اور غافل حکمران سوئے ہیں۔اس صحرا میں پانی کی قدرو قیمت کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ یہاں زندگی کی بہت بڑی ضرروت پانی کا بہت بڑا حصول بارشوں کے ذریعہ سے ممکن ہے-

چولستان کی نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ موجودہ حکومت پر فرض بنتا ہے کہ اُس کے لیے مناسب حکمت عملی کی جاسکے تاکہ اُدھر تڑپ تڑپ کر مرنے والوں کو بچایا جاسکے۔ہمارے ملک میں ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے جس میں محض اپنی سیاست اور جلسے چمکانے کی جستجو میں حکمران مگن ہیں۔یا چولستان سے بے خبر ہیں۔اپنے جلسوں کو روشن کرکے خوب سیاست چمکائی جارہی ہے

اگر چولستان پر کچھ توجہ دی جائے تو کچھ حد تک وہاں بھی پانی کی صورت میں روشنی پیدا کی جاسکتی ہے۔ملکی صورت حال کو دیکھنا موجودہ حکومت پر لاگو ہے سابقہ حکومت پر نہیں۔جس قدر ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے جلسوں کے اہتمام پچھلے ایک ماہ سے کیے جارہے ہیں ۔اُسی طرح چولستان بھی توجہ کا منتظر ہے۔جلسے نہیں چولستان کو روشن کریں۔سیاست وفضولیات سے وقت ملے تو ادھر بھی متوجہ ہواجائے۔اس حوالے سے مناسب اقدامات کیے جائیں تاکہ قیمتی جانیں محفوظ کی جاسکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں