ضمیرفروشی کی منڈی پر قدغن
مسلم لیگ( ن )قیادت کو اقتدار میں آنے کی بہت جلدی تھی ،لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سے بْری طرح پھنس گئے ہیں،جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ سپریم کورٹ کے لوٹا کریسی کے خاتمے سے متعلق سنائے جانے والے تازہ فیصلہ نے پوری کر دی ہے ،عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے دو کے مقابلے میں تین ارکان نے اکثریت سے رائے دی ہے کہ اپنی پارٹی سے منحرف ہونے والے رکن پارلیمان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا،
کہ ہر دور اقتدار میں پیسے کے زور پر ارکان پارلیمان کی وفاداریاں تبدیل کی جاتی رہی ہیں ،تاہم اس بارتحریک اعدم اعتماد کے موقع پر حسب روایت وفاداریاں بدلنے پرایک صدارتی ریفرنس عدالت عظمیٰ میں بھیجا گیا ، اس میں حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت کے ارکان کو خریدا گیا
اور ان کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئی ہیں، اس وقت کی حکمراں جماعت اپنی صفوں میں بغاوت کو روک نہیں سکی تھی، اس لیے عدالت عظمیٰ سے بمدد حاصل کرنے کی بھی کوشش کی تھی، لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں دیر ہوگئی اور حکومت تحریک عدم اعتماد کا میاب ہو نے پر چلی گئی ،عدالت عظمی کا فیصلہ دیر سے ہی سہی ،مگر ایسا آیا ہے کہ آئندہ کیلئے وفاداریاں بدلنے والوں کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔
ملک کے سیاسی و عوامی حلقوں میں عدالت عظمی کے فیصلے کو سراہا جارہا ہے ،لیکن اس ریفرنس کے بارے قانونی ماہرین کے حلقوں میں اختلاف ہے کہ عدالت عظمیٰ کا جواب حکم یا رائے ہے ،تاہم دیکھنا ہے کہ اس آڈر کے وفاقی اور صوبائی حکومت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ،پنجاب کی حکمراں مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے
کہ اب بھی انہیں پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ( ن)دونوں نے ہی عدالت اعظمی سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے ، اس بات کا قوی امکان ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب کرنا پڑے ،لیکن اس وقت ایک بار پھر سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس کا نقصان بھی سیاسی جماعتوں کو ہی اُٹھانا پڑے گا۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے حق میں آنے والے فیصلوں کو ہی خوش دلی سے قبول کرتی ہیں ،مگر اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرتی ہیں،صدارتی ریفرنس کے آڈر پر بھی ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے ،ہو سکتا ہے کہ اس کے کچھ ساسی جماعتوں کیلئے اثرات وقتی طور پر موافق نہ ہوں ،مگر اجتماعی زندگی میں اجتماعی مفاد کی اہمیت ہوتی ہے
اور ہماری جمہوریت کا اجتماعی مفاد انہی اصولوں میں ہے جو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں طے کردیے ہیں، یہ آئینی تشریح سیاسی جماعتوں کو نہ صرف اصولوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مدد کرے گی ،بلکہ جمہوریت کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے گی ،یہ عدالتی آرڈر سیاسی جماعتوں کیلئے موقع پیدا کررہا ہے کہ خود پر لگے دھبے دھونے کیلئے کھلے دل سے ان تشریحات کو قبول کریں ،
اس سے سیاسی انتشار کا خاتمہ ہی نہیں، سیاسی استحکام بھی آئے گا۔یہ ملک کی سیاسی قیادت پر انحصار ہے کہ سیاسی بحران سے نکلنا چاہتے ہیں کہ سیاسی انتشار برپا کرکے اپنی جمہوریت کو ہی دائو پر لگانا چاہتے ہیں ،ملک میں سیاسی جماعتوں کی مضبوطی سے ہی جمہوریت کی مضبو طی ہے ،لیکن اسے کمزور خودہی جمہوریت کے دعویدار کررہے ہیں ،سیاسی قیادت عرصہ دراز سے وفاداریاں بدلنے والوں کے حوالے سے واویلا کرتی رہی ہیں ،عدالت عظمیٰ نے اپنے آرڈر کے ذریعے نہ صرف ضمیرفروشوں کی منڈی پر قدغن لگا دی ہے ،
،لیکن اس ملک کی سیاسی قیادت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے ، یہ حصول اقتدار کیلئے کچھ بھی کر گزرسکتے ہیں ،یہ نا اہلی کو اہلیت میں بھی بدل سکتے ہیں،یہ ضمیرفروشی کی منڈی پر لگے کفل دوبارہ کھلوابھی سکتے ہیں