55

سیای اُفق پر بے یقینی کے سائے

سیای اُفق پر بے یقینی کے سائے

پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی افق پر غیر یقینی کے سائے بڑھتے جارہے ہیں،حکومت کی تبدیلی سے بھی کوئی بڑی تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے، تحریک انصاف حکومت گھر بھیجنے کے بعدتیرہ جماعتی مخلوط حکومت قائم ہوچکی ہے،لیکن اس حکومت کا مستقبل بھی غیر یقینی نظر آرہا ہے،حکومتی صفوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ پاکستان کی معیشت مستحکم کرنے کیلئے آئی ایم ایف اور امریکا کے عوام دشمن اقدامات کا بوجھ کون اٹھائے گا، مسلم لیگ (ن) قیادت پہلے ہی کہہ چکی ہے

کہ حکومت کے پاس امریکا اور آئی ایم ایف کے احکامات ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ،ایک طرف وزیر اعظم بڑے فیصلوں کا بوجھ مل کت اُٹھانے کی بات کررہے ہیں تو دوسری جانب مریم نوازدوسروں کا بوجھ اُ ٹھانے کی بجائے انتخابات کروانے کو ترجیح دیے رہی ہیں،حکومتی اتحادیوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ سارا ملبہ خود پر لاد کر حکومت چلائیں کہ انتخابات میں جاکر اپنی سیاست بچائیں ،انہیں آگے سمندر اور پیچھے گہری کھائی دیکھائی دیے رہی ہے ۔
اس میں شک نہیں

کہ حکومتی اتحادی خود کو بچانے اور عمران خان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے اقتدار میں آئے تھے ،مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس قدر بڑے سیاسی ومعاشی بحرانوں میں پھنس جائیں گے ،ایک طرف عمران خان حکومت مخالف عوامی سمندر کے ساتھ اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہے تودوسری جانب معاشی بحران میں دندن بدن اضافہ ہورہا ہے ، ملکی معیشت میں بہتری لانے کیلئے وزارت خزانہ کے عہدیداران آئی ایم ایف سے مذاکرات تو کررہے ہیں لیکن ڈالر کے نرخوںکی بلند اڑان کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا ہے ،

اس وقت ڈالر 200 روپے سے بھی تجاوز کرگیا ہے، نئی حکومت آنے کے بعد صرف ایک ماہ میں ڈالر کی قیمت میں 15 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے،لیکن حکومت ابھی تک طے ہی نہیں کر پارہی ہے کہ سارا بوجھ کس نے کیسے اُٹھانا ہے۔
حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادت وزیر اعظم سے مل کر یقین دھانیاں کر چکے ہیں کہ حکومت میں آئے ہیں تو سب مل کر ہی بوجھ اُٹھائیں گے ،مگر وزیر اعظم شہباز شریف کو یقین نہیں آرہا ہے ،اس لیے ساتھ ہوتے ہو ئے بھی گارنٹی لانے والوں سے مانگی جارہی ہے ،حکومت صرف اتحادیوں کی نہیں ،بلکہ اپنی حکومت کی ڈیڑھ سالہ مدت کی بھی گارٹی چاہتی ہے ،لیکن انہیں کہیں سے کوئی گارٹی نہیں مل رہی ہے

،اس لیے جہاں بڑے فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ نظر آتی ہے ،وہیں عوام کے مسائل کے تدارک میں بھی عدم دلچسپی کا اظہار کیا جارہا ہے ،حمزہ شہباز آٹا،چینی ،گھی کی قمتیں کم کرنے کی باتیں کرتے نہیں تھکتے ،جبکہ مارکیٹ میں بتائی جانے والی قیمتوں پر کچھ بھی دستیاب نہیں ہے ،اس قیمت پر عوام کو یو ٹیلٹی سٹوروں پر بھی کچھ نہیں مل رہا ہے ،اس آزمائی قیادت نے پہلے بھی عوام کو جھوٹے وعدوں اور دلاسے کے پیچھے لگائے رکھا اور اب بھی جھوٹے دلاسوں کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھنا چاہتے ہیں

،لیکن اس بار عوام کسی دھوکے فریب میں نہیں آئیں گے۔حکومتی اتحاد دوسروں کے سہارے اقتدار میںتو آگئے ہیں ،مگر انہیں بہت کم مدت میں کچھ کرکے دکھانا پڑے گا ،دوسر صورت میں انتخابات میں جانا پڑے گا ،لیکن انہیں وہاں آپنی شکست صاف دکھائی دیے رہی ہے ،اس صورت حال میں حکومت کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ تمام اتحادی مل کر سخت معاشی فیصلے کریں، تا کہ ایک طرف خود کو بچانے کے ساتھ ملک کو بھی ڈیفالٹ کے خطرے سے بچا جاسکے،حکومتی اتحادیوں کو ملک سے زیادہ خود کی فکر ہے ،

کیو نکہ وزیراعظم سمیت اتحادی حکومت کے بیش تر ارکان کے اوپر بدعنوانی اور کرپشن کے مقدمات ہیں، اس لیے حکومت نے آتے ہی سب سے پہلے ایف آئی اے اور نیب میں بڑے پیمانے پر تبادلے شروع کردیے تھے ،لیکن اس پر عدالت عظمیٰ کے سو موٹو کے بعد حکومت تلملا کررہ گئی ہے ،اس کی بے بسی دیکھنے کے لائق ہے کہ حکومت کے وزیر داخلہ بھی عدالت عظمیٰ پر کھلے عام تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

اس ساری سیاسی ہلچل کے باوجود حکومت کی اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پورے کرے گی، اس بارے تحریک عدم اعتماد کے منصوبہ ساز آصف علی زرداری کچھ زیادہ ہی پرُاعتماد دکھائی دیتے ہیں، لیکن بدلتے سیاسی حالات حکومت کے حق میں نہیں جارہے ہیں،ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی اور معاشی اْفق پر بے یقینی کے سائے مزید گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں،

مسلم لیگ (ن) کی وفاق اور پنجاب میں بظاہرحکومت نظر آتی ہے ،لیکن ایک ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک مستحکم ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے، عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے بعد حمزہ شہباز حکومت جہاں جاتی نظر آرہی ہے ،وہیںایک ووٹ پر قائم وفاقی حکومت بھی لڑکھرانے لگی ہے، اس کے ساتھ ہی عمران خان کی عوام رابطہ مہم بھی زور وں پر ہے اورلانگ مارچ کی تاریخ کے اعلان کے بعدسیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوتا دکھائی دیے رہا ہے ،حکومت بظاہر دکھانے میں کوشاں ہے

کہ اسے کوئی گھبراہٹ نہیں ،مگر اندر سے نہ صرف گھبرائی ہے ،بلکہ ٹانگیں بھی کا نپ لگیں ہیں،اس سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کا خاتمہ نئے انتخابات کے انعقاد سے ہی ممکن ہے،حکومت انتخابات کا جلد از جلد اعلان کر کے ہی سیاسی خلفشار اوربے یقینی کی کیفت سے باہر نکل سکتی ہے،بصورت دیگر سیای اُفق پر گہرے ہوتے بے یقینی کے سائے میں سب کچھ ہی ڈوب جائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں