38

فیصلے کی گھڑی آن پہنچی

فیصلے کی گھڑی آن پہنچی

کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
اس وقت ملک تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے،قومی آمدنی کے وسائل معدوم اور اخراجات بے قابو ہوتے جارہے ہیں، تجارتی خسارہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے،ادائیگیوں میں توازن نہیں رہا ہے ، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا حجم کئی گناہ بڑھ چکا ہے، ڈالراپنی اڑان بھرتا جا رہا ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب چکے ہیں، باہر سے سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے کے لیے آمادہ دکھائی نہیں دیتے ہیں، نئی حکومت کو ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے،

لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس قابلِ عمل معاشی پالیسی دے سکے نہ عوام کا اعتماد بحال کرسکے ہیں ، اس فیصلے کی گھڑی میں بھی حکومت گومگو کے عالم میںہے، حکمران ابھی تک فیصلہ ہی نہیں کرپارہے ہیں کہ انہوں نے حکومت کرنی ہے کہ انتخابات کروانے ہیں۔یہ امر واضح ہے کہ موجودہ صورت حال میں قبل از وقت انتخابات کی تجویز بُری نہیں ہے ،تاہم اس کا فیصلہ حکومت اور اتحادیوں نے مل کر ہی کر نا ہے ،

ماہرین معیشت کے ساتھ محب وطن حلقے حکومت سے تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ فوری کوئی فیصلہ کرے کہ اس نے حکومت میں رہنا ہے تو ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے، اگر حکومت درپیش چیلنجز سے نبرد ازما نہیں ہو سکتی تو پھر اقتدار چھوڑ دے اور نئے انتخابات کا اعلان کر کے معاملات نگران حکومت کے سپرد کر دے،اس وقت ملکی معیشت اور سیاست جس بحرانی کیفیت سے دوچار ہے ،اس کا سیاسی حل اتفاق رائے سے انتخابات کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت شدید دبائو کا شکار نظر آتی ہے،حکومتی اقدامات اور رویوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ موجودہ حکومت سرِدست ایسے فیصلوں سے گریزاں ہے کہ جن کے اثرات ان کی سیاسی مقبولیت میں کمی کا باعث بنیں، اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کریں گے ،کیونکہ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایسا زبردست ریلا آئے گا کہ جو حکومت کے حق میں پائے جانے والے عوامی جذبات کو بہا کر لے جائے گا

،اس وجہ سے ہی مریم نواز کو کہنا پڑا ہے کہ سابقہ حکومت کی تباہی کا ٹوکرا اپنے سر نہیں لے سکتے ، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ حکومت ہی چھوڑ دی جائے، لیکن حکومتی اتحادی اتنی مشکل سے حاصل کردہ حکومت چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل نیب قوانین میں تبدیلی اورانتخابی اصلاحات ضرور کر لی جائیں ،کیو نکہ اس کے بغیر خود کو بچا پائیں گے نہ آئندہ انتخابات میں کا میابی حاصل کر پائیں گے۔
اس میں شبہ نہیں کہ ملک کی اقتصادی و معاشی بد حالی نا صرف موجودہ حکومت، بلکہ عوام کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے،ملک پر قرضوں کے بوجھ ‘ توانائی کے بحران، مختلف مصنوعات کی پیداوار میں کمی اور بے روزگاری ومہنگائی میں اضافے نے عوام کی کمر دوہری کرکے رکھ دی ہے ،عوام کے تمام مسائل کا حل اور معیشت کی بحالی محض دعوئوں اورنعروں سے نہیں، حکومت کے ٹھوس اور عملی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے، اس کیلئے حکومت کو اپنی انا اور اپنے مفادات کی قربانی دینا ہو گی ،حکومت جب تک اپنے محدود مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے قومی مفادات کو تر جیح نہیں دیے گی ،اس وقت تک ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آئے گا نہ عوام کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لائی جاسکے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام 74سال سے ہر حکومت کے لئے قربانیاں دیتے آرہے ہیں، اس کے باوجودموجودہ حکومت بھی معاشی بحالی کیلئے عوام سے ہی قربانی مانگ رہی ہے، حکومت ایک بار عوامی مفاد میں فیصلے کرنے کی جرأتتو کرے ،عوام انہیں بھی مایوس نہیں کرینگے، لیکن حکومتی قیادت کو بھی چاہیے کہ ملک میں روزگار کی فراہمی ‘ مہنگائی میں کمی کے ساتھ برآمدات کے فروغ‘ ملکی پیداوار میں اضافے‘مقامی صنعت کاروں ‘ تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لئے ترغیبات اور سہولتوں کی فراہمی کے اقدامات کرے ، لیکن یہ سب کچھ حکومتی اتحاد کر نہیں پائے گا

،حکمران ہر بار محض غریب عوام سے قربانیوں کے تقاضے کرنے کی بجائے اپنے ارد گرد بیٹھے بد عنوانوں، ذخیرہ اندوزوں اور کرپٹ مافیازکے خلاف بھی تادیبی اقدامات کرے،اس ملک کے ایوانوں میں جب تک کرپٹ مافیا عوام کے منتخب نمائندوں کے بھیس میںبیٹھے رہیں گے ،اس وقت تک ملک کی معیشت میںبہتر آئے گی نہ ہی ملک میں سیاسی استحکام لایاجاسکے گا ، اس لیے عوام نے مفاد پرستوں سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ،

عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ،عوام لانگ مارچ کی شکل میں سڑکوں پر آرہے ہیں،حکومت کیلئے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے ،اس لیے تاخیری حربوں کی بجائے حتمی فیصلہ کرے ، اس فیصلہ کن گھڑی فیصلہ سازی میں جتنی تاخیر کی جائے گی ،اس کا نقصان صرف حکمرانوں کو ہی نہیں ،پشت پناہی کرنے والوں کو بھی اُٹھانا پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں