56

شوق اقتدار کی سیاسی قیمت

شوق اقتدار کی سیاسی قیمت

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے خاتمے اور پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کو پانچ ہفتے مکمل ہوچکے ہیں ،لیکن حکومت ناگزیر فیصلوں کے حوالے سے اب تک تذبذب کی کیفیت میں مبتلا نظر آرہی ہے،دوسری جانب عمران خان نے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے

اسمبلیاں تحلیل کرنے اور الیکشن کروانے کا ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہرایا ہے،یہ مطالبہ صرف تحریک انصاف ہی کا نہیں ،بلکہ حکمران اتحاد کا بھی رہا ہے ،اس کے باوجود اتفاق رائے اور پیش رفت کی نوبت نہیں آرہی ہے ،یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اَنا کے ہاتھوں مجبور حکمران قیاد ت کوسیاسی ڈیڈ لاک سے نکلنے کی کوئی راہ ہی سجھائی نہیں دے رہی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ حکومتی اتحاد سیاسی و معاشی بحران میں بری طرح گھری ہے ، تاہم حکومت ان بکھیروں کو سنبھالنے کا عزم تو ظاہر کرتی ہے ،

مگر قریب ڈیڑھ ماہ کے عرصہ اقتدار میں ان کی گرفت میںکچھ بھی نہیں آسکا ہے ،اُوپر سے سیاسی قیادت کی محاذ آرائی مزید مسائل کی شدت میں اضافہ کررہی ہے ،اس کے اثرات سماج میں واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں ،عوام میں دن بدن بے یقینی بڑھ رہی ہے ،خاص طور پر نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت اور روز گار کے اچھے مواقع ملنے چاہئیں،تاکہ قومی ترقی میں حصہ دار بن سکے ،

مگر وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید مایوسی کا شکارنظر آتے ہیں،عوام کے صبر کا پیمانہ چھلکنے کے قریب ہے ،اس بڑھتے درجہ حرارت میں کو ئی ایک چنگاری بڑی آگ لگا سکتی ہے ،حالات کو اس نہج پر پہنچنے سے بچانا حکمران قیادت کی اولین تر جیح ہونی چاہئے ،اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ،اس کے لیے سبھی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو لچک دکھا نا ہوگی ۔
یہ امر انتہائی قابل افسوس ہے کہ سیاسی قیادت نے ما ضی کی غلطیوں سے سبق نا سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،سیاسی محاذ آرائی کا کل بھی نتیجہ اچھا نہیں نکلا تھا ،آج بھی برا ہی نکلے گا ،اس لیے بہتر ہے کہ سیاسی قیادت اپنی محاذ آرائی میں جمہوریت کو دائو پر لگانے کی بجائے افہام تفہیم سے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرے ،اس وقت اپوزیشن کا بنیادی مطالبہ انتخابات کے اعلان کا ہے ،اگر حکومت بھی سمجھتی ہے

کہ موجودہ بحران سے نکلنے کا راستہ انتخابات ہی ہے تو اس میں دیر ی کرکے خلفشار کو مزید بڑھاوا دینا درست نہیں ہے،حکومتی اتحاد کا اقتدار میں رہنے کا شوق اپنی جگہ ،مگراس جذبہ شوق میں ڈیڑھ ماہ کے نتائج سب کے سامنے ہیں،اس حکومت کا آغاز جیسا ہے انجام بھی ویسا ہی ہو گا، لہذاحکومت کیلئے فیصلے کی گھڑی ہے کہ انتخابات کرواکر باعزت طور پر سیاسی بحران سے نکل جائے یا پھر شوق اقتدار میں اپناسیاسی مستقبل دائو پر لگا دیے ، یہ فیصلہ اتحادی جماعتوں نے نہیں ، مسلم لیگ( ن)قیادت نے کرناہے۔
موجودہ حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بڑے فیصلے تو کرنہیں پائی ، البتہ عوام کے مفاد میں جو چند چھوٹے فیصلے کئے، وہ بھی پی ٹی آئی حکومت کے اقدامات کا تسلسل ہیں، حکو مت کی ساری تکودو عوامی مسائل کے تدارک کی بجائے اپنے مقدمات داخل دفتر کرنے کیلئے کی جارہی ہے ،اس کی دوسری کوشش

ایسی انتخابی اصلاحات ہیںکہ جن کے ذریعے آسانی سے آئندہ مستقل اقتدار میں رہ سکیں، عوام ان کے لئے پہلے بھی سوتیلی اولاد تھے اور اب بھی غیر ہی سمجھا جارہا ہے ، اس لیے ہی پٹرول اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کے حق میں دلائل دینے لگے ہیں، یہ حکومت میں رہے تو بہت جلد نہ صرف سبسڈی ختم کریں گے ،بلکہ پٹرولیم سے لے کر عام روز مرہ اشیاء کی قمیتوں میں بھی اضافہ کریں گے۔
اس وقت مجموعی طور پر صورت حال ایسی ہے کہ کہیں سے کوئی خوش کن اطلاع نہیں آرہی ہے،ایک ایسا ماحول نظر آرہاہے کہ جہاںسب کو بہت جلدی ہے ،حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنے حصول مفاد میںجائزو ناجائز کا فرق بھول چکے ہیں،اپوزیشن لانگ مارچ کے ذریعے اپنی طاقت دکھانا چاہتی ہے تو حکومت لانگ مارچ ناکام بنا کرخود کو منوانا
چاہتی ہے ،اس محاذ آرائی میں نہ صرف تصادم ہوگا،بلکہ اس کا نقصان بھی ملک وعوام کو اُٹھانا پڑے گا ، اس بگڑتی صورت حال میں چاہئے تھا کہ انتخابات کا اعلان کرکے سیاسی انتشار کا خاتمہ کیا جاتا ،لیکن قومی مفاد کے آڑے ذاتی مفادات آرہے ہیں، کیا سیاست میںبڑھتی محاذ آرائی میں ادارے نیو ٹل رہ پائیں گے ؟

اگر مقتدر ادارے سیاست کی برھتی محاذ آرائی میں یونہی خاموش تماشائی بنے رہے تو اس کی قیمت نہ صرف جمہوریت ،بلکہ ریاستی اداروں کو بھی ادا کرنا پڑے گی ۔پاکستان اس وقت سنگین معاشی بحران سمیت جن داخلی و بیرونی چیلنجوں سے دوچار ہے ان میں نظریاتی اور فروعی اختلافات کے باوجود یہ امر ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اس ملک کی بقا و ترقی میں سب ہی کی بقا و ترقی ہے، وطن عزیز کو منجدھار سے

نکالنے کے لیے مل جل کر کام کرنا سب ہی کی ضرورت اور ذمہ داری ہے، ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام حلقوں سے صرف مودبانہ گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ خدارا! ذاتی و گروہی انائوں کو پس پشت ڈال کرقوم و ملک کی فکر کریں،اپنے شوق اقتدار میں ملک و جمہوریت کو دائو پر نہ لگایا جائے ،اس ملک کی بقا میں ہی سب کی بقا ہے ، اگر ملک ہے تو سب کچھ ہے ،ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں بچے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں