44

آزادی مارچ نہیں روکے گا

آزادی مارچ نہیں روکے گا

حکومت اتحاد صرف ساٹھ دن پہلے تک عمران خاں حکومت سے صا ف وشفاف فوری انتخاب کا مطالبہ کر رہے تھے،انہوں نے اپنے مطالبات کو بزور طاقت منوانے کے لئے اسلام آباد کی طرف پانچ مرتبہ لانگ مارچ کیے ، پی ٹی آئی حکومت نے ان کے کسی احتجاج، مارچ اور دھرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالی نہ قیادت کو پابند سلاسل کیا ،ہر دفعہ ان کا احتجاج عوام کی طرف سے خاطر خواہ پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے ناکام رہا ہے

،اس وقت اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے اور عمران خان سڑکوں پرصاف و شفاف فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں،حکومت ان کے لانگ مارچ کو روکنے کیلئے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے ،لیکن عوام کے آزادی مارچ کو زبرستی روکنا اتنا آسان نہیں ،جتنا کہ سمجھا جارہا ہے ،یہ لانگ مارچ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام دونوں ہی صورتوں میں عام آدمی کی زندگی مشکل ہوگی، لیکن اس کا ایک روشن پہلو ہے

کہ لانگ مارچ کی کامیابی اور حکومت کی تبدیلی سے پاکستان کی حقیقی آزادی وخود مختاری کا سفر شروع ہو جائے گا،تاہم اس کا فیصلہ بہرحال عوام نے ہی کرنا ہے۔یہ امرواضح ہے کہ عوام اغیار کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ،تاہم حکومت ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ عوام آزادی مارچ کے ذریعے بیرونی تسلط سے چھٹکارا حاصل کر پائیں گے

،آج ایک طرف عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں تشکیل پائی جانے والی حکومت تودوسری جانب اقتدار واختیار سے محروم کی جانے والی اپوزیشن ہے، اپوزیشن کے قائدعمران خان فوری طور پرنئے الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں ،لیکن حکمران عوام کی عدالت میں جانے سے کترا رانے لگے ہیں ،

وہ بڑی مشکل سے حاصل کردہ اقتدار کے پورے مزے لینا چاہتے ہیں ،لیکن انہیں اقتدار سے نکالنے کیلئے عمران خان نے آزادی مارچ کا آغاز کر دیا ہے، حکومت آزادی مارچ کو ناکام بنانے کیلئے تمام تر غیر جمہوری حربے استعمال کررہی ہے ، اس سے آزادی مارچ روکے گا نہ عوام کے حوصلے پست ہوںگے ،

البتہ حکومت کیلئے خود کو بچانا ضرور مشکل ہو جائے گا۔اس میں شک نہیں کہ حکومت خود کو بچانے کے چکر میں مزید انتشار اور بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہوتی جارہی ہے ،اس منفی رجحان سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ سیاسی قوتیں کسی اتفاق رائے کی جانب بڑھتیں ،مگر یہ توقع پوری ہونے کے امکانات بنتے اور ٹوٹتے ہی رہ گئے ہیں،یہ کسی ایک کی نہیں ،سب کی ناکامی ہے کہ جس کے نتائج سب ہی کو بھگتنا پڑیں گے

،حکومت مخالف آزادی مارچ لاکھ کوشش کے باوجود نہیں روکا جاسکا،اگر اسے ایک بار پھر سیاسی سوجھ بوجھ سے ہینڈل کر نے کی بجائے روایتی سینہ زوری سے کام لیا گیا تو انتشار میں بہت زیادہ اضافے کااندیشہ ہے،اس صورت حال کا سب سے بڑا فریق کون ہو سکتا ہے ،ایسے حالات سے حکومتیں ہی متاثر ہوتی ہیں

،مگر در حقیقت کسی ایک سیاسی جماعت کا صرف نقصان نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے ساتھ ملک و عوام کا بھی ہوتا ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عوام کی کسی کو کوئی فکر نہیں ،سب کو اپنی ہی پڑی ہوئی ہے ،حکومت جانا نہیں چاہتی اور اپو زیشن اسے بھیجنے پر تلی ہوئی ہے ،اس بار اپوزیشن تنہا نہیں ،عوام کا ایک ہجوم ساتھ کھڑا ہے ،

حکومت کے پاس آئینی مدت کا بہانہ ہے نہ اتنی طاقت کہ عوام کے بھڑتے سیلاب کا مقابلہ کرسکے ،اس صورت حال سے نکلنے غیر معمولی اقدامات نا گزیر ہیں ،اس میں تا خیر کا مطلب واضح ہے کہ معاملات مزید شدت اختیار کریں گے،اگر کوئی سوچ رہا ہے کہ آنے والے والے دنوں میں حکومتی صورتحال تبدیل ہو جائے گی

اور سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا تو یہ خوفریبی کے علاوہ کچھ نہیں،حالات بڑی تیزی کے ساتھ خانہ جنگی کی جانب بڑھتے چلے جارہے ہیں۔اگر بغور دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت ،دنیا کے سب سے بڑے احتجاج کا سامنا کررہی ہے،وزیر داخلہ کے سارے دعوئے اور اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں،

عوام کا ایک ہجوم سڑکوں پر سراپہ احتجاج ہے ،حکومت آزادی مارچ روک سکی نہ ہی عوام کے سیلاب کے آگے بند باندھے جا سکتے ہیں،اگر اس احتجاج کا فوری نتیجہ نہ نکلا اور اس کا دورانیہ بڑھتاہی چلا گیاتو پاکستان کی سیاست ومعیشت کے ساتھ ا نتظامیہ کا جو نقصان ہو گا،

سو ہوگا،یہ تحریک آزادی ،قیادت کے نہ چاہتے ہوئے بھی تشدد کی راہ اختیار کر سکتی ہے ،عوام کا منہ زور ریلہ حکمران، ارکان اسمبلی اور وزراء کے گھروں کا رخ بھی کرسکتا ہے ،عوام کا ہجوم جب اتحادی قیادت کی جانب اپنا رخ کرے گاتو پھر انہیںکوئی بچانے والا سامنے آئے گا نہ ہی کو ئی بچا پائے گا ،قوم غلامی سے آزادی کے جس راستے پر چل نکلی ہے ، حکومت اسے لاکھ کوشش کے باوجود روک نہیں پائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں