30

ادارے ہی ملک بچائیں گے

ادارے ہی ملک بچائیں گے

کالم :صدائے سحر
تحریر شاہد ندیم احمد

تحریک انصاف قیادت نے پشاور سے لانگ مارچ کا آغازکیا توحکومت نے احتجاج اور لانگ مارچ کو طاقت کے ذریعے ناکام بنانے کا فیصلہ کرلیا، پی ٹی آئی قیادت دعویٰ کرتے رہے کہ احتجاجی مارچ پرامن ہوگا، لیکن حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال اور گرفتاریوں کے بعد سیاسی کشیدگی جو پہلے ہی کچھ کم نہیں تھی،اس میں مزید اضافہ ہوگیاہے ،ایک جمہوری ملک میں عوام کے اظہارے احتجاج کو دبانے کیلئے حکومت کا ظلم پوری دنیا نے دکھا ہے ،حکومت جتنا مر ضی اپنی تو جیہات بیان کرتی رہے

،لیکن اس کا اصل چہرا کھل کر عوام کے سامنے آگیا ہے ،اگر چہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کو اسمبلیاں ختم کرنے اور انتخابات کے اعلان کیلئے چھے روز کی مہلت دیتے ہوئے لانگ مارچ ختم کر دیا ،لیکن عوام کے اندر حکومت سے چھٹکارہ حاصل کرنے اور غلامی سے نجات کی جو چنگاری لگائی گئی ،وہ آگ کی شکل میں بھڑک اُٹھی ہے ،اس بھڑکتی آگ کو فوری انتخابات کے انعقاد سے ہی بجھایاجاسکتا ہے ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے کہ جب بھی کسی حکومت کے خلاف کوئی سیاسی معرکہ پیش آتا ہے تو غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کا کردار بھی دیکھا جانے لگتا ہے، اس مرتبہ بھی یہی موضوع زیر بحث ہے اور اب تو سیاسی رہنمائوں اور قائدین کے زبان سے بھی عام جلسوں میں اس مسئلے پر بات چیت شروع ہوگئی ہے،

مقتدرہ جتنا مرضی خود کو الگ رکھنے کے دعوئے کرتے رہیں ،حکومت اور اپوزیشن دونوں کے بیانات واضح کررہے ہیں کہ کل بھی اُن کا عمل دخل رہا ہے اور آج بھی فیصلے وہیں ہو رہے ہیں ،حکو مت کی تبدیلی سے لے کر حکومت بننے اور لانگ مارچ سے لے کر آزادی مارچ کے خاتمے تک میں کسی نہ کسی طریقے سے شامل حال رہے ہیں۔
یہ طاقت کے مراکز میں اضطراب اور بے چینی کا سبب ہے کہ اب عوامی سطح پر ایسی باتیں ہونے لگی ہیںکہ جن کی حرارت محفوظ پناہ گاہوں میں موجود بادشاہ گروں کو اذیت دیتی ہیں، اس منظر نامے کو سیاسی وغیر مبصرین بھی خاص طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف لانگ مارچ کو بزور طاقت ختم کروایا گیا تو دوسر جانب اچانک حکومتی اتحاد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ایک بار پھر اعلان کررہاہے

کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی،موجودہ حکومت کے بارے میں واضح ہے کہ اس کی قیادت مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے، جب کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان حکومت کے خاتمے کے منصوبہ ساز پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری تھے ،اتحادی حکومت قائم توہو گئی ،لیکن مستحکم نہیں ہو پارہی ہے، اس کے سامنے بہت سے ایسے سیاسی و معاشی مسائل ہیںکہ جن پر قابو پانا ،اس کے بس سے باہر ہے ،اس کا لانے والوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ تجربہ کار ی کے دعوئیدار وں کا سارا پول سب کے سامنے کھل جائے گا۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں رائے پائی جاتی تھی کہ اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کی طرف چلے جائیں،یہ مطالبہ تحریک انصاف کا بھی ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) ابھی تک فیصلہ نہیں کر پارہی ہے ،وہ ایک طرف آصف زرداری کے دبائو میں ہے تو دوسری جانب مقتدرہ بھی گرین سگنل نہیں دیے رہے ہیں ،

اس پس منظر میں تحریک انصاف کا آزادی مارچ سیاسی مستقبل کے تعین میں اپنا کردار ضرور ادا کرے گا،کیو نکہ جب سیاسی قیادتیں اپنے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام ہوتی ہیں تو غیر سیاسی قوتیں ڈکٹیٹ کرتی ہیں، اس وقت سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گونج رہاہے کہ ا صل مقتدر طاقتیں کس کی پشت پر ہیں، جبکہ بظاہر دونوں جانب ہی نظر آرہی ہیں،اس ڈبل پا لیسی کے باعث ہی سیاسی قائدین کے اضطرابی بیانات مستقبل میں سیاسی انتشار کے اشارے دے رہے ہیں۔اس وقت ملک جس سیاسی و اقتصادی بدحالی کا شکار ہے

اور اپنی سالمیت کو درپیش جن اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہے، اس کے پیش نظر ملک کسی اندرونی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام کا مزیدمتحمل نہیں ہو سکتا ، اس کا قومی سیاسی قیادتوں کے ساتھ مقتدرہ کو بہرصورت ادراک ہونا چاہیے،ہر ایک کی اپنی تر جیحات کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں بھی ہیں ،

اس لیے کسی کو اقتدار پر ناجائز قابض رہنے اور کسی کو ملک میں انارکی کی فضا پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس کا پی ٹی آئی قیادت کو اپنی احتجاجی مہم میں احساس ہونا چاہیے، وہیںتادیبی اقدامات اٹھاتے وقت حکومت کو بھی حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے،مقتدرہ کو بھی چاہئے کہ نیوٹرل کے بیان سے باہر نکل کر انتخابات کے ذریعے سیاسی بحران کا خاتمہ کروائے ، ملک بچانے کے لئے قومی سلامتی کے اداروں کو ہی آگے

آنا ہوگا، ملکی سلامتی کے ادارے جب تک حکومت و اپوزیشن قیادت کو بٹھا کرموجودہ نظام کا خاتمہ اور آئند بروقت الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر نہیں کرئیں گے ،اس وقت تک ملک سے محاذ آرائی وسیاسی انتشار کا خاتمہ ممکن نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں