خوشی 98

خوشی

خوشی

تحریر::گوہر ارشد

خوشی سے مراد دلی سکون,طبعیت میں ٹھہراؤ,چہرے پر مسکان۔لیکن کہیں بار یہ بھی سننے میں آیا کہ خوشی کا مطلب اک غم اور دوسرے غم کے درمیان وقفہ ہے۔ہماری زندگیاں دکھ درد کی کیفیات سے لبریز نظر آتی ہیں۔اک غم کے نکلنے کے ساتھ ہی دوسرا تیار کھڑا نظر آتا ہے۔دنیا میں خوشی یا سکون نام کی کوئی چیز نہیں۔

لیکن ہاں جو لوگ اللّٰہ تعالٰی کی ذات سے لو لگا لیتے ہیں۔ان کو یہاں بھی اس دنیا میں اور آخروی زندگی میں بھی سکون اور اصل خوشی حاصل ہوتی ہے۔اللہ کا ذکر انسانی قلب کو سکون کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔اس کے سوا کوئی اور چیز آپ کو ان کیفیات کا احاطہ کرنے میں سازگار معلوم نہیں ہو سکتی۔اور حقیقی خوشی کا تعلق بھی رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے۔کسی دانا کا یہ قول اس صادق آتا ہے کہ
”جو پرندہ اوپر پرواز کرتا ہے۔وہ اگرچہ آسمان کی بلندیوں تک نہیں پہنچتا مگر جال سے محفوظ رہتا ہے۔اسی طرح خدا کا طالب اگر کمال کو نہ پہنچے۔مگر یہ طلب اس کو دنیا اختلاط سے دور رکھے گی۔وہ دنیاوی دلچسپیوں کے جال میں ہر گز نہ آئے گا۔اس سے بچا رہے گا”اس سارے قول سے مراد یہ ہے کہ جب آپ خدا کی ذات سے اپنے تعلق کو مضبوط کر لیتے ہیں تو دنیاوی دکھ درد آپ کو غافل نہیں کر سکتے

وہ آپ کو غمزدہ نہیں کر سکتے۔اور خوشی کا تعلق ظاہراً جسم سے بہت کم ہے۔انسان کو اصل خوشی تب حاصل ہوتی ہے۔جب وہ اپنے باطن (روح) کو سنوارنے پر توجہ دیتا ہے۔اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ دنیاوی مال متاع میں خوشی تلاش کرنے کہ بجائے اللہ پاک کے دیے ہوئے مال میں سے دوسروں پر خرچ کرکے خوشی حاصل کرے۔کسی مرجھائے ہوئے چہرے کو مسکراہٹ دے کر سکون قلب کی دولت حاصل کرے

۔کسی بیوہ کہ یتیم بچے کو گلے لگا کر اطمینان حاصل کرے کسی روتے ہوئے مسکین کو کھانا دے کر وہ سب کچھ حاصل کر لے جو وہ دنیاوی مال و متاع میں تلاش کرتا پھرتا ہے۔خدا کی ذات انسان سے اس وقت خوش ہوتی ہے

۔جب وہ کسی دوسرے انسان کے چہرے پر مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہوتا ہے۔جب خدا کی ذات آپ سے خوش ہوتی ہے۔تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ آپ کو اداسی کی گہری دلدل میں رہنے دے دے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ خدا کی ذات کے ساتھ اس کی مخلوق کا بھی خیال رکھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں