اپنا بویا ہی کا ٹناپڑے گا
تو عوامی نفرت کا سارا لاوا ان کے خلاف نہیں اٹھے گا؟ تب یہ لوگ کہاں کھڑے ہوں گے ،کیا مسلم لیگ( ن ) قیادت کو اس بات کا ادراک نہیں ہے؟ اس سارے منظر نامے میں جن کی مقبولیت دائو پر لگی ہے، اس کی اصل قیمت بھی انہیں ہی چکانا پڑے گی اوراپنا بویا خود ہی کا ٹنا پڑے گا۔
یہ پا کستانی عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ انہیںجو بھی حکمران ملے ،انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر عوام کو دھوکہ دینے میں کبھی عار محسوس نہیں کیا ہے ،پی ڈی ایم قیادت اقتدار میں آنے سے قبل ملکی مسائل کے تدارک کے حوالے سے دعوئیدار رہی ہے کہ ہمارے پاس سارے ماسائل کا مؤثر پلان موجود ہے ،
مگر اقتدار میں آنے کے بعد تمام تر دعوئے دھر کے دھرے رہ گئے ہیں ،حکومتی اتحاد اب سارا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالنے میں لگے ہیں ،ایک طرف مہنگائی مارچ کرنے والے عوام پر مہنگائی بم گرارہے ہیں تو دوسری جانب عوام سے رلیف دینے کے جھوٹے دعوئے کرنا بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں،حکومتی اتحادی پہلے بھی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ہیں اور اب بھی سمجھتے ہیں کہ عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے میں کا میاب ہو جائیں گے۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے حکمران جھوٹ اور فریب کے
بغیر ہمیں مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے، مگر اس کے ساتھ احسان بھی جتلارہے ہیں کہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر اضافہ کے باوجود 37 روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں،مگر یہ واضح نہیں کررہے ہیں کہ سبسڈی جاری رکھنے کے باوجود آئی ایم ایف سے90کروڑ ڈالر کی قرض کی قسط وصول ہو جانے کا یقین کس بنیاد پر ظاہر کیا جارہا ہے۔اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں پر قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوا ہے، وہ کبھی ختم ہوا ہے نہ ہی کم کیا جاسکا ہے ،بلکہ اس میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوا ہے،
ملک میں آئے روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کا جینا عذاب بنا دیا ہے ،مگر وزیر خزانہ اسے معمولی قرار دے رہے ہیں اور عوام کو باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس پر حکومتی قیادت بہت دکھی ہے ،اگر حکمران واقعی عوام پر بوجھ ڈالتے ہو ئے دکھی ہوئے ہیں تو انہیں زبانی کلامی دکھی ہو نے کی بجائے کوئی عملی اقدامات کرنے چاہئے ،اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کاکہنا بجا ہے کہ ایک ارب ڈالر کی
لیکن حکمران شائد کبھی ایسا نہیں کریں گے ،کیو نکہ وہ اقتدار میں ملک و عوام کیلئے اپنے اثاثے بیچنے نہیں،بلکہ اس میں اضافہ در اضافہ کرنے کیلئے آتے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عوام کل بھی ایک اچھی اُمید پر سیاسی قیادت کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے تھے اور آج بھی اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے سیاسی قیادت ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں ،سیاسی قیادت عوام کی اُمید پر پورا اُتر نے
کی بجائے ایک طرف عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہے ہیں تو دوسری جانب ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف عمل نظر آتے ہیں ،ملک و قوم قریباً دو ماہ سے جس سیاسی افراتفری کا شکار ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ مقتدر ادارے آگے آکر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سیاست اور انتخابات کے اونٹ کو اب کسی کروٹ بٹھا لیں اور نئے انتخابات کے نتیجہ میں آنے والی حکومت عوام کے مسائل حل کرے،
نہ سیاسی انتشار کا خاتمہ ہو سکے گا ،اس لیے اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی طرف پیش قدمی کرنا ہو گی اور جو بھی پارٹی اکثریت حاصل کرے ،اسے حکومت بنانے کا حق دینا ہو گا، تاکہ قوم سیاسی افراتفری کے غبار سے نکل کر روشنی کی نئی راہیں تلاش کر سکے، اگر سیاسی قائدین نے اپنی روش نہ بدلی اور ایک دوسرے کے خلاف انتشار پھلا کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے میں لگے رہے تو اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اپنا بویا ہی کا ٹنا پڑے گا