کھڑک سنگھ
جمہور کی آواز ایم
سرورصدیقی
۔ایک دن معمولات سے بیزار ہوکر سردارکھڑک سنگھ اپنے بھانجے کے پاس گئے اور کہا کہ’’ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دو(ان دنوں میں کسی بھی سیشن جج کے آرڈر انگریز وائسرائے کیا کرتے تھے)۔ یہ سن کر مہاراجہ پٹیالہ کی ہنسی چھوٹ گئی اور کھلکھلا کر بولے ماموں آپ اور جج ۔۔ نہ بھئی نا یہ ناممکن ہے؟
سردار کھڑک سنگھ نے کہا دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں مہاراجہ پٹیالہ نے کہا آپ تو پڑھے لکھے نہیں ہیں جج کیسے بن سکتے ہیں سردار کھڑک سنگھ نے مونچھوںکو تائو دیتے ہوکہا اکبر بادشاہ کون سا ایم اے پاس تھا وہ میری طرح ان پڑھ تھا لیکن تاریخ کا سب سے کامیاب اور بارعب مغل بادشاہ تھا
۔ ماموں کی بات سن کر مہاراجہ پٹیالہ لاجواب ہوگئے انہوں نے ناچار وائسرائے کے نام ایک چٹھی لکھ کر سفارش کی کہ ان کے ماموںکھڑک سنگھ کو سیشن جج لگا دیں۔بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ سیدھاوائسرائے کے پاس جاپہنچا اور اپنے بھانجے کی چٹھی پیش کی۔، وائسرائے نے خط پڑھا اور پھر کھڑک سنگھ سے کچھ سوالات پوچھنے لگا تاکہ یہ جان سکے کہ کھڑک سنگھ جج بننے کے اہل ہے یا نہیں۔
وائسرائے نے سردار کھڑک سنگھ سے پوچھا’’ ٹمہارا نام؟
سردارکھڑک سنگھ نے ترنت اپنا نام بتادیا
وائسرائے۔ تعلیم؟
سردارکھڑک سنگھ۔’ نے اک شان ِ بے نیازی سے کہا’تسی مینو جج لانا اے یاں سکول ماسٹر؟’’
یہ بات سن کروائسرائے ہنستے ہوئے ’’سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟
سردارکھڑک سنگھ نے موچھوں کو تائو دیا اور بولا ’’بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ، میں کئی سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں۔
وائسرائے نے دل میںسوچا چلوآزمانے میں کیا ہرج ہے جج کا جج شغل کا شغل۔۔ جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کاماموں۔وائسرائے نے عرضی پر دستخط کردئیے اور کھڑک سنگھ کوجسٹس لگانے کا فرمان جاری ہوگیا۔وہ اپنے آرڈر لے کر پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں جا پہنچے ۔ اتفاق سے اسی روزپہلا کیس قتل کا تھا۔کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی ہوئی
ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے(پیچھے)سے نکلے اورمیرے کھسم(شوہر)کو جان سے مار دیا۔’’جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا ’’کیوں بدمعاشو، تم نے بندہ ہی مار دیا؟’’دائیں طرف کھڑے ایک ملزم نے کہا’’نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی’’ ،دوسرے نے کہا’’ میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ،ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے
یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے جناب قتل کا مقدمہ ہے ، یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا تھا؟’’جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا ’’یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟’’پولیس والے نے جواب دیا’’جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے۔کھڑک سنگھ بولا’’
۔اس فیصلے کے بعد اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی بھی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا۔ جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا۔ آس پڑوس کی ریاست سے بھی لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔اس واقعہ کے بعدمشہور ہوا کہ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کی کھڑک سنگھ کایہ منقولہ آج کے دور میں پوری دنیا کو دیکھنے کو مل رہا ہے۔انڈین کسان سکھ جس طرح انڈیا میں کھڑک رہے ہیں
حالانکہ وہ اسی ملک کا شہری تھا۔ آج ایک طرف انڈیا میں یوم جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جمہوریت کا گلا گھوٹنے والا سلوک کیا جارہاہے نچلی ذات کے ہندئوں کا جینا عذاب بنادیا گیاہے ، سکھ اور تامل ناڈو میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں سکھ برادری کے ساتھ ان دنوں جو سلوک کیا جارہا ہے