41

افسانہ: امتحان

افسانہ: امتحان

تحریر: اقصیٰ اعجاز

شائنہ تم کیوں انکار کر رہی ہو 32 سال کی عمر میں اب کونسا شہزادہ تم کو بیاہنے آئے گا؟کب تک زندگی یوں ہاسٹل میں اکیلی گزارتی رہو گی؟؟احمر بہت اچھا انسان ہے کیا ہوا کہ اس کی ایک بیٹی ہے۔6ماہ کی بچی سے تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہونا چاہیے ویسے۔ایسی بات نہیں ہے شمائلہ تم میری بات نہیں سمجھ رہی

میں اس کی بیٹی یا احمر کی کسی بات کی وجہ سے انکار نہیں کر رہی بلکہ انکار کی وجہ وہی ہے جو میں نے تمہیں اس دن بتائی تھی اور یہ وجہ میں نے احمر کو بتائی ہے تو وہ کہتا ہے کہ امی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے تم بس چپ رہو۔۔۔
لیکن یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے میں اس احساس کے ساتھ کیسے اتنا بڑا فیصلہ کر سکتی ہوں؟خاص کر احمر کی امی سے تو چھپا نہیں سکتی تمہیں یاد ہے وہ انیسہ کی شادی پر بھی باتوں باتوں میں سب کو یہی کہہ رہی تھیں کہ عائزہ کو تو میں پالوں مگر میں چاہتی ہوں کہ احمر کی اور شادی کر دوں اللہ اسے اور اولاد دے اور بیٹا عطا کرے تاکہ وہ احمر کا بازو بنے اور عائزہ کا سہارا بنے تو پھر اتنا بڑا دھوکہ کیسے دے سکتی ہوں؟؟اوہو اچھا وہ ماں نا بننے والی بات یار اللہ پر بھروسہ رکھو اللہ تعالی اپنا کرم کرے گا۔

پانچ سال پہلے شائنہ کی زندگی میں ایک آزمائش آئی تھی جس نے اس سے اس کا ماں بننے کا مان چھین لیا اور اسی مان کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے اس نے اب تک شادی نہ کی تھی مگر اب اس کا کولیگ احمر بہت اصرار کرنے لگا تھا

اور اس کی امی بھی باقاعدہ رشتہ وغیرہ لانے کو تیار تھیں وہ اپنی ہونے والی ساس کو ساری حقیقت بتانا چاہتی تھی مگر احمر نے سختی سے منع کر دیا تھا اور وہ اس کی بات بھی ٹال نہیں سکتی تھی لیکن یہ خلش اس کے دل میں رہ گئی تھی۔شائنہ دلہن بن کر بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس کے پاس ہی کاٹ میں لیٹی عائزہ کھیل رہی تھی وہ بہت پیاری بچی تھی شائنہ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی اللہ تعالی نے ایک اچھے شوہر کے ساتھ اسکو اولاد سے بھی نواز دیا تھا۔وہ سوچ رہی تھی کہ عائزہ کی امی بہت خوبصورت ہو گی کیونکہ عائزہ بالکل اپنی ماں جیسی تھی اس نے بے اختیار عائزہ کو گود میں بھر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد آنٹی سونے کے لئے چلی جاتیں تھیں لیکن آج وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں سنو شائنہ شادی کو چھ ماہ ہو گئے ہیں ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں آئی تمہاری طرف سے؟؟تمہارے اور احمر کے تعلقات کے درمیان سب ٹھیک ہے نا؟؟؟شائنہ تو ان کے اس سوال پر اندر تک لرز گئی تھی

کچھ بول ہی نہ پائی وہ اپنی زندگی میں بہت پر سکون اور مطمئن تھی لیکن اب اس کا اضطراب بڑھ رہا تھا آنٹی اب ہر دوسرے دن اپنے پوتے کی خواہش لے کر بیٹھ جاتیں تھیں اس نے آج احمر سے بات کی احمر نے اس کو تسلی دی اور کہا پریشان مت ہو لیکن پریشانی تو جیسے اس کے ساتھ چپک گئی تھی۔۔۔۔۔
آنٹی نے اب احمر کے سامنے بھی بار بار اولاد کا ذکر کرنا شروع کر دیا ایک دن احمر نے تنگ آکر امی کو کہہ دیا کہ اسے اور اولاد نہیں چاہیے اور یہ بات تو جیسے آنٹی کو کرنٹ کی طرح لگی تھی انہوں نے احمر کو خوب ڈانٹا۔
شائنہ جو سمجھ بیٹھی تھی کہ زندگی کے سارے امتحانات ختم ہو گئے ہیں وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اصل امتحان تو اب شروع ہوا تھا وہ پل پل خاردار راستوں سے گزر رہی تھی اس کے اختیار میں کچھ نہیں تھا آنٹی بھی غصے میں نہ جانے کیا کیا بولتی رہتی تھیں ایک دن تو انہوں نے حد کر دی کہنے لگی کہ پتا نہیں کہاں سے والدین ہیں تمہارے تم خود بھی پیدا ہوئی ہو یا کہیں سے اٹھائی گئی ہو۔۔۔۔
شائنہ کردار پر بات نہیں سن سکتی تھی

اس نے آج آنٹی کو سب سچ بتانے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کو شام کی چائے کے وقت عملی جامہ بھی پہنا دیا اس نے آنٹی کوجیسے ہی اپنے ماں نہ بننے والی بات بتائی وہ آپے سے باہر ہو گئیں انہوں نے عائزہ کو شائنہ کی گود میں پکڑایا اور چپ چاپ شائنہ کو بازو سے پکڑ کر گھر سے نکال دیا شائنہ بہت زیادہ رونے لگی اور ان کی منت کرنے لگیں کہ احمر سب جانتا ہے۔مگر وہ بالکل چپ تھیں جیسے گونگی اور بہری ہوں اور اس کی کوئی بات نہ سن رہی ہوں انہوں نے دروازہ کھول کر شائنہ کو باہر نکال کر دروازہ زور سے بند کرلیا دروازے کے شور سے اٹھ کر عائزہ بھی رونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔
شانہ نے خود کے گرد دوپٹے کو اچھی طرح سے لپیٹا اور باہر لان میں بیٹھ گئی اس نے عائزہ کی طرف دیکھا اور اس کو چپ کروایا۔ اتنے میں احمر آفس سے آیا اس نے دیکھا کہ گھر کے باہر بیٹھی شائنہ زاروقطار رو رہی تھی وہ احمر کو دیکھ کر جلدی سے اس کے بازو سے آ لگی احمر نے اس سارے حالات کی وجہ پوچھی تو اس نے روتے روتے ساری بات اس کو بتائی۔احمر اپنی امی کے اتنے شدید رد عمل سے پریشان ہو گیا

اس نے دروازہ ان لاک کیا اور دونوں کو اندر لے کر چلا گیا مگر جیسے ہی انہوں نے شائنہ کو دیکھا تو منہ پھیر کر کمرے میں چلی گئیں احمر بھی ان کے پیچھے گیا تو انہوں نے کہا کہ میں اس دھوکے باز عورت کو اپنی نظروں کے سامنے برداشت نہیں کر سکتی اگر تم نے اس کو رکھنا ہے تو مجھے گھر سے نکال دو میں اس کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی۔امی مجھے ساری حقیقت کا پتا تھا تمہیں پتہ ہو یا نہ ہو لیکن مجھے نہیں پتا تھا

اگر یہ یہاں رہی تو میں جا رہی ہوں یہ میرا آخری فیصلہ ہے مجھ سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔احمر اپنی امی کی ضد کو جانتا تھا اس نے کہا کہ میں ان دونوں کا سامان اوپر کمرے میں شفٹ کر دیتا ہوں۔
امی وہ میرے نکاح میں ہے اور اب عائزہ کی ماں ہے میں اس کو گھر سے نہیں نکال سکتا۔
چلو ٹھیک ہے اگر تم اس کو گھر سے نہیں نکال سکتے تو میں اپنی پسند کی بہو گھر میں لاؤں گی وعدہ کرو تم میری بات مانو گے تو ہی تمہیں اجازت ملے گی۔اس نے اپنی امی سے ایک دو دن کی مہلت مانگی اور شائنہ کو امی کے سامنے جانے سے منع کردیا شائنہ اور عائزہ دونوں اوپر شفٹ ہو گئیں تھیں۔
ابھی زندگی کے اس امتحان کو گزرے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک نیا امتحان شائنہ کی زندگی میں آ گیا تھا احمر کی امی زیادہ تر احمر کو نیچے اپنے ساتھ رکھتی تھیں اور اس کے دل میں بھی اولاد کی خواہش جگا چکی تھیں

انہوں نے اپنی ضد احمر سے منوا لی اور آج اس کی نئی نویلی دلہن احمر اور آنٹی سب خوش گپیوں میں مصروف تھے ان کے ہنسنے اور بولنے کی آوازیں اوپر کے پورشن میں آرہیں تھیں یہ آوازیں ہی اب شائنہ اور عائزہ کے لیے زندگی کا کڑا امتحان بن گئی تھی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں