اسلام ایک مکمل دین
اسلام ایک مکمل دین ہے اسلام کا مکمل ضابطہء حیات ہونا کوئی جدید اصطلاح نہیں ہے، (جیسا کہ آج کل بہت سوں کو یہ گمان ہو رہا ہے) نہ ہی یہ سب تحریکِ تنویر کی طرح ردِعمل کا سا معاملہ ہے، بلکہ یہ تو خالق کی بسائی ہوئی دنیا میں اسی کے احکامات کے مطابق زندگی کا گزارنا ہے اور یہ نظامِ حیات اتنا ہی قدیم ہے،
جتنا کہ یہ عالم جن و انس۔ دراصل اسلام اپنے ماننے والوں سے بغیر کسی قطع و برید کے مکمل شمولیت کا تقاضا کرتا ہے،اور یہ تقاضا کرنا اس امر کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کا کوئی بھی ایسا بامعنیٰ پہلو نہیں جس کے متعلق قرآن و حدیث میں اصولی طور پر اور فقہاء کی آراء میں جزوی طور پر اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہو۔جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں اس انداز سے بیان فرماتے ہیں:
إِنَّ الدِّینَ عِندَ اللّہِ الْإِسْلاَمُ.
آل عمران، (3: 19)’’بے شک دین اللہ کے نزدیک فقط اسلام ہی ہے۔‘‘ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِینًا.المائدہ،(5: 3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی
مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘
’’ یَا ا?َیُّہَا الَّذِیْنَ ا?ٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَافَّۃً۔‘‘ (البقرۃ:۸۰۲)
’’اے ایمان والو! دین میں مکمل طور پر داخل ہوجاؤ۔‘‘
ان آیات سے اسلام کے ایک کامل اور مکمل دین ہونے کا تصور ابھرتا ہے۔
حدیث جبریل ہمارے پورے دین کی نمائندہ حدیث ہے۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبریل علیہ السلام نے سوال اور جواب کی صورت میں اور بہت ہی سہل اور آسان طریقے سے دین کے سمجھنے،سمجھانے اور افہام وتفہیم کی ایک رہنما لائن پیش کی ہے اور وہ یہ کہ حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام ایسی صورت میں تشریف لائے جو کہ سب کیلئے حیرت کن تھی۔سفید لباس میں ملبوس،
جہاں ان پر سفر کا کوئی اثر ظاہر نہ ہوتاتھا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ میں سے انہیں کوئی جانتے تھے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے۔ایک شخص آیاجس کا انتہائی سفید لباس تھا اور اس پر سفر کے آثار بھی نہیں تھے کیونکہ اتنا سفید لباس عرب کے ماحول میں جہاں گرد وغبار تھا، کسی مسافر کا نہیں ہوسکتا تھا۔ طویل سفر کے اندر لباس کا سفید حالت میں رکھنا ناممکن ہے۔اس طرح کے اسفار میں چہرے اور لباس پر سفر کے آثار نمایاں ہوتے ہیں
اور اسے ہم میں سے کوئی جانتا بھی نہیں تھا، یعنی وہ ہم میںسے بھی نہ تھا،یعنی وہ شخص ایک اجنبی اور غریب الوطن لگتا تھا کیونکہ اگر مدینے کا ہوتا تو ہم میں سے کوئی نہ کوئی اسے ضرور جان لیتا۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انتہائی ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ گیا اور پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا قریب ہوگیا کہ اجنبی بھی نہیں لگتا تھا۔پھر وہ نبی علیہ السلام سے اس انداز سے مخاطب ہوا کہ وہ کوئی انتہائی قریبی تعلق والا ہے اور اس نے یہ سوال کیا کہ: ایما ن کیا ہے؟