124

عظمت کردار اور عصر حاضر کے تقاضے

عظمت کردار اور عصر حاضر کے تقاضے

تحریر.فخرالزمان سرحدی

پیارے قارئین کرام!عنوان اپنی جامعیت اور اکملیت کے باعث اہتہائی اہم ہے.اس پر جتنی بھی خامہ فرسائی کی جائے محتاج بیاں ہے.تاریخ کی ورق گردانی کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قلب سلیم کی دولت اگر ہاتھ آئی تو علم کی دولت اور کردار سے.انسانیت کو تسکین ملی تو کردار کی دولت سے اور یہ دولت ہاتھ آتی ہے تو کردار کی عظمت سے اور عصر حاضرکے تقاضے بھی یہی ہیں کی ایمان کامل سے دلوں کو تسکین کی دولت سے مالا مال کیا جائے.یہ بات روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ زندگی گزارنے کے کچھ آداب ہیں.

اخلاق کی بلندی اور کردار کی عظمت سے انسانیت کو معراج ملتی ہے.معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ نے کائنات میں کلمہ حق سے ایک ایسا انقلاب رونما فرمایا کہ حیات کے پیمانے تبدیل ہوئے.اسانیت ایک نئی ڈگر پر چل پڑی.اطاعت الٰہی اور اطاعت رسولﷺسے ایک عہد نو کا آغاز ہوا.زندگی حسین روپ میں سامنے آئی.حقوق اللہ اور حقوق العباد سے زندگی کو سکون اور قرار ملا.عصر حاضر کے تقاضے ہیں

کہ مادہ پرستی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے اور روح کی تسکین کی دولت میسر ہے.درد دل سے انسانیت کو سکون میسر آسکتا ہے.مومن اور کافر کی پہچان ایمان کامل سے ہوتی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ زندگی کی خوبصورتی عمل سے ہوتی ہے.کلام اقبال میں بہت قیمتی باتیں ملتی ہیں.اقبال بڑا آپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہےگفتار کا غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا کردار ایک ایسا قیمتی گوہر نایاب ہے جس سے شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے.ادب و احترام ایک ایسا قرینہ ہے

جس سے زندگی کا رنگ و نکھار میں اضافہ ہوتا ہے.انسان کی زندگی ایمان کامل اور ذوق صدق سے اجاگر ہوتی ہے.ایمان ایک ایسی دولت نایاب ہے جس سے انسان کی زندگی سنورتی ہے.موجودہ عہد میں اسلامی تعلیمات کی روشنی سے تاریک دلوں میں اجالا کی ضرورت ہے.انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد تو رب کائنات کی عبادت ہے.مسلمان تو اسوہ حسنہ کی پیروی میں زندگی کا سفر طے کرتا ہے. اس کا منشا اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ﷺ ہوتا ہے.جو جھلک عاشقان اسلام کی زندگی میں نظر آتی ہے

وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی.کردار کی جھلک تب نمایاں ہوتی ہے جب انسان ایمانی جذبہ سے سرشار ہو کر مومن کامل اور مکمل مسلمان کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے.اس وقت عمل کی ضرورت ہے.خواہشات کی غلامی تباہی و بربادی ہے.خوف خدا سے زندگی خوبصورت بنتی ہے.دنیا اور آخرت میں کامیابی ملتی ہے.یہ بات روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ یہ دنیا سرائے فانی ہے.

انسان کو ایمانیات,عبادات,اخلاقیات,اور معاملات سے کامیاب زدگی بنانی چاہیے.قرآن مجید کی عالگیر تعلیمات سے سینہ روشن کیا جائے.ذکر الٰہی سے دلوں کو گرمایا جائے.خوف خدا کے چراغ روشن کیے جائیں.محبت رسولﷺ یعنی جو طریقے آپﷺ نے بتائے ان کو اپنایا جائے.حقیقی غلامی اللہ تعالٰی کی جائے.حلال اور حرام میں امتیاز برتا جائے.اللہ سے امیدیں وابستہ کی جائیں.ایک احسن عمل سے ہی کردار کی تشکیل نو ہوتی ہے

.نہیں ہے کوئی چیز نکمی قدرت کے کارخانہ میں.انسانیت کا احترام ہی ایسا خوبصورت راستہ ہے جس سے سکون اور قرار کی ثروت ملتی ہے.مقصد حیات اتنا اہم ہے جس سے کامیابی کی راہ ہموار ہوتی ہے.مومن کی زندگی تو اپنی مثال آپ ہوتی ہے.بقول شاعر-ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن,نئی شان گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان کردار کی عظمت کا اظہار اسی سے ہوتا ہے کہ وہی لوگ عظمت کی بلندیوں تک پہنچ پاتے ہیں

جو اپنی تمام خواہشات کو خوف خدا سے قربان کرتے ہیں.مشاہیر اسلام کے کردار کو انسانیت آج بھی سراہتی ہے.اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عارضی زندگی میں بندگی رب کے مطابق زندگی کا سفر طے کیا جائے.نفس امارہ کے خلاف جہاد کیا جائے.طاغوتی قوتوں کے تسلط سے آزادی حاصل کی جائے.مقصد حیات کی تکمیل کی خاطر مثبت راستے دین اسلام کا انتخاب کیا جائے.عصری تقاضوں کے پیش نظر تعلیم اور علم کی افادیت پر توجہ مرکوز کی جائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں