Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

ما قبل آزادی ھند, مسلم یکتا کی نشانی پانی والی مسجد شکار پور

اپنےجرات مندانہ ایمانی جذبہ کو ثابت کرنے کا وقت

اگنی پتھ حکومتی اسکیم کے خلاف، عوامی ہنگامہ آرائی پر رویش کمآر کا تجزیہ

ما قبل آزادی ھند, مسلم یکتا کی نشانی پانی والی مسجد شکار پور

نقاش نائطی
۔ +966562677707

کیرتھر کینال کے بہتے پانی کے درمیان آج جو 6 کھمبوں والے پل کے ساتھ جڑی مسجد نظر آرہی ہے ، سو سال پہلے 1922 میں، یہاں کوئی نہر نہیں تھی۔ اور یہ مسجد زمین پر تعمیر کی گئی تھی۔ 1922 میں جب برطانوی حکومت نے، علاقے کے لوگوں کے ساتھ ہی ساتھ کھیتوں کی سیرابی کے لئے، سکھر بیراج سےپانی کی راہداری کھودنے کا فیصلہ کیا تو، انہوں نے اس کیرتھر کینال کے راستے میں،

اس مسجد کو، کینال پروجیکٹ کی تکمیل میں رکاوٹ کی شکل سامنے پایا ، برٹش سامراج نے اس مسجد کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مقامی عالم دین مولانا تاج محمد امروٹی نے،مسجد کو بچانے کے لیے نہر کا رخ تبدیل کرنے کا نہ صرف مشورہ دیا،بلکہ مولانا نےبرطانوی حکومت سے، تحریری درخواست بھی کی، لیکن سب بے سود رہا۔ انگریز حکومت مسجد کو شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکی تھی۔مولانا امروٹی نے ایک پوسٹر شائع کیا اور لوگوں کو مشورہ دیا کہ مسجد کے ارد گرد جمع ہو جائیں، لاکھوں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔

انگریز کلکٹر نے مولانا سے بحث کرتے ہوئے کہا، آپ کا خدا اپنا گھر کیوں نہیں بچاتا ہے؟ گویا یہ دھمکی تھی کہ مسجد گرانے کا فیصلہ ہوچکا ہے مولانا امروٹی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اگر کوئی آپ کے کلکٹر دفتر پر حملہ کرنے آئے، تو کیا آپ کا بادشاہ جورج خود آکر لڑے گا یا آپ لڑیں گے؟ گویا مولانا کی طرف سے کلکٹر کو واضح پیغام تھا کہ مسجد کو شہید ہونے سے بچانے کے لئے، مسلمان کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔

آخر کار کلکٹر نے حکم دیا کہ مسجد کو نقصان پہنچایا نہ جائے۔ اس منصوبے کے انجینئر نے کیرتھر کینال کے ساتھ ہی ساتھ، مسجد کا بھی ڈیزائن تیار کیا، اس طرح کہ نہر کے ساتھ ساتھ مسجد دونوں بچ گئیں، اس وقت سے، اسے پانی والی مسجد کا نام دیا گیا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس تک 6 ستونوں پر کھڑے چھوٹے پل سے پہنچا جا سکتا ہے۔

یہ مسجد والی عمارت مسجد کے اندر ٹائلوں کے خوبصورت کام کے ساتھ، ہر ایک کو حیران کر دینے والی، دیکھنے لائق مسجد ہے۔ یہ پانی والی مسجد 1947 میں برطانوی سلطنت سے، آزاد ہونے کے لئے ایک اہم تاریخی نشان تھی۔ یہ مسجد شکارپور ضلع میں امروٹ گاؤں کے قریب واقع ہے۔

1922 اس وقت کم و بیش آدھی دنیا پر سابقہ چار سو سال سے حکومت کرنے والے، انگریز سامراج کے خلاف، کچھ ہزار مسلمان ،یکجہتی سے ڈٹے رہتے، انسانیت کے لئے اس وقت انتہائی ضروری، پانی کی راہداری پر مسجد باقی رکھنے میں, جہاں کامیاب رہے۔ لیکن بعد آزادی ھند مختلف فرقوں مسلکوں میں بٹے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مست، بھارت کی آبادی کے پانچویں حصہ والے،ہم 30 کروڑ مسلمان، اس وقت کے انگریز سامراج کے تلوے چاٹنے والے، آزادی ھند کے ھیروز کی آنگریزوں کو مخبری کرنے والے، وعدہ معاف گواہان، اس وقت کے ھندو مہا سبھائی اور آرایس ایس والے،

اورآج کے سنگھی مودی بریگیڈ کے سامنے، اتنے بے بس و نپونسک ہوگئے کہ ہم اپنی پانچ سو سالہ بابری مسجد کو شہید ہونے سے اس وقت بچا سکے اور نہ آج عدلیہ عالیہ ہی سے تمام ترقانونی دستاویزات والی بابری مسجد زمین کو، قاتل بابری مسجد کے حوالے کرنے سے باز رکھ پائے۔ ہماری مصلحت آمیز خاموشی یا کمزوری کا، آج یہ صلہ مل رہا ہے کہ کاشی کی کئی سو سالہ تاریخی گیان واپی مسجد اور متھرا عید گاہ کے علاوہ، بھارت بھر کےمختلف علاقوں کی ہزاروں مسجدوں، درگاہوں خانقاہوں پر،

اب ان سنگھی شدت پسندوں کی ناپاک نظریں گڑھی ہوئی ہیں۔ یہی نہیں؟ اپنے ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرم کی تعلیمات کے خلاف، ہزارہا اقسام کے خرافات پر عمل پیرا یہ آج کے سنگھی ذہنیت شدت پسند، ہمیں یعنی، عالم کے سب سے پرامن، سچے پکے، ڈیڑھ ہزار سال کی طویل مدت میں بھی،ایک حرف تک نہ بدلے ہوئے، آسمانی کتاب قرآن مجید کی تعلیمات پر، عمل پیرا،ہم مسلمانوں کے اعمال و اقدار پر، اب یہ انگلی اٹھانے تک کی جسارت کر پا رہے ہیں۔ ہمارے اسلامی عقیدے مطابق ہر کسی کی موت و رزق متعین ہے، اس پر یقین کامل رکھنے والے ہم مسلمان، آج بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے تیار رہتے،

لاکھوں کروڑوں کی تعداد سڑکوں پر نکل آئیں تو نہ صرف ہماری مساجد بالکہ ہمارے دینی اقدار کی بھی ہم بخوبی حفاظت کرسکتے ہیں، اور ان سنگھی شدت پسندوں کو یہ صاف صاف بتا سکتے ہیں کہ، سابقہ بیش سال دوران ہم مسلمانوں کے خلاف منظم انداز اسلاموفوبیا بہانے، ہمارے دینی اقدار پر حملہ آور،امریکن و یورپی عوام نے، بالآخر کیسے اپنے یہاں کے تین سے پانچ فیصد مسلمانوں کو، سر راہ نماز ادائیگی تک کی کھلی چھوٹ دینے پر رضامندی اختیار کی ہوئی ہے۔ بھارت میں ہم اب بھی کل آبادی کے

پانچویں حصہ، کم و بیش تیس کروڑ مسلمان، کیا ہم متحد ہوکر، عزت وچین و سکون کے ساتھ، بھائی بھائی کی طرح مل جل رہ رہنے کا گر، انہیں سکھا نہیں سکتے ہیں؟ ہزاروں سالہ آسمانی ویدک دھرم والی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث ،گنگا جمنی تہذیب پر، عمل پیرا رہنے والا پاٹھ،انہیں پڑھا نہیں سکتے ہیں؟ اور یہ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے اصل واسی دلت، آدیواسی، پچھڑی جاتی، بھارت کی آبادی کے نصف سے زائد، جہاں ہیں، وہیں کہیں نہ کہیں وہ بھی، برہمنی چھوت چھات بھید بھاؤ نظام کے تحت،

ان سنگھی شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ کیوں نہ مسلم قیادت، ان دلت پچھڑی جاتی، اکثریتی آبادی سے،کھلے عام سیاسی گٹھ جوڑ کرتے ہوئے، ان شدت پسند ھندوؤں کے آگے، سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے پائے جائیں۔ سب سے اہم دلت برادری کی، دیش کی عدلیہ سے، جو ای وی طرز انتخاب رد کرنے کی مانگ ہے، ہم مسلمانوں کو بھی، یکجا ہوکر، ان کے ساتھ ای وی ایم طرز انتخاب کے خلاف عدالتی لمبی جنگ لڑنی پڑیگی،

بصورت دیگر یہ تین سے پانچ فیصد برہمن سماج، دلت ہچھڑی جاتی ووٹ کے، بی جے پی حق میں پڑے ظاہر کرتے ہوئے، ای وی ایم چھیڑ چھاڑ اپنی ہر انتخابی جیت کو، اپنے بکاؤ بھونیو میڈیا، مختلف تجزیاتی سروے رپورٹ، غلط بیانی سے، حق بجانب ٹہراتے ہوئے، ایک حد تک غیر تعلیم یافتہ بھارتیہ اکثریت کو، بے وقوف بناتے ہوئے، ہم پر زبردستی حکومت کرتے رہینگے۔ وما علینا الا البلاغ۔

Exit mobile version