37

خوشی کامفہوم

خوشی کامفہوم

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

گاہک نے دکان میں داخل ہو کر دکاندار سے پوچھا: کیلوں کا کیا بھاؤ لگایا ہے؟ دکاندار نے جواب دیا: کیلے 100 روپے درجن اور سیب150 روپے کلو۔اتنے میں ایک عورت بھی دکان میں داخل ہوئی اور کہا: مجھے ایک درجن کیلے چاہیئں، کیا بھاؤ ہے؟ دکاندار نے کہا: کیلے 30 روپے درجن اور سیب80 روپے کلو۔ عورت نے الحمد للہ پڑھا۔دکان میں پہلے سے موجود گاہک نے کھا جانے والی غضبناک نظروں سے دکاندار کو دیکھا، دل ہی دل میں سوچنے لگا کتنا بے ایمان دکاندارہے مجھے کتنا مہنگا فروٹ بیچ رہاتھا

اس سے پہلے کہ گاہک کچھ اول فول کہتا: دکاندار نے گاہک کو آنکھ مارتے ہوئے تھوڑا انتظار کرنے کو کہا۔عورت خریداری کر کے خوشی خوشی دکان سے نکلتے ہوئے بڑبڑائی: اللہ تیرا شکر ہے، میرے بچے انہیں کھا کر بہت خوش ہونگے۔عورت کے جانے کے بعد، دکاندار نے پہلے سے موجود گاہک کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا

: اللہ گواہ ہے، میں نے تجھے کوئی دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔یہ عورت چار یتیم بچوں کی ماں ہے۔ کسی سے بھی کسی قسم کی مدد لینے کو تیار نہیں ہے۔ میں نے کئی بار کوشش کی ہے اور ہر بار ناکامی ہوئی ہے۔ اب مجھے یہی طریقہ سوجھا ہے کہ جب کبھی آئے تو اسے کم سے کم دام لگا کو چیز دیدوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا بھرم قائم رہے اور اسے لگے کہ وہ کسی کی محتاج نہیں ہے۔ میں یہ تجارت اللہ کے ساتھ کرتا ہوں

اور اسی کی رضا و خوشنودی کا طالب ہوں۔دکاندار کہنے لگا: یہ عورت ہفتے میں ایک بار آتی ہے۔ اللہ گواہ ہے جس دن یہ آ جائے، اْس دن میری بکری بڑھ جاتی ہے اور اللہ کے غیبی خزانے سے منافع دو چند ہوتا ہے۔گاہک کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اْس نے بڑھ کر دکاندار کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا:

بخدا لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں جو لذت ملتی ہے اسے وہی جان سکتا ہے جس نے آزمایا ہو واقعی دوسروںکی خدمت کرکے جو روحانی خوشی نصیب ہوتی ہے دنیا میں اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا وطن عزیز پاکستان میں سینکڑوںنہیں ہزاروں بھی نہیں بلا مبالغہ کروڑوں لوگ ہوںگے جو چھوٹی چھوٹی خوشیوںکو ترستے ہیں مشاہدہ ہے گراںفروش جب چاہیں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھادیتے ہیں حکومت کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیںہے انتظامیہ بھی لمبی تان کرسوئی رہتی ہے

چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہرہوتی جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار تین روز ہ فروٹ خریدنے کا بائیکاٹ کیا گیا پھر چکن کے بائیکاٹ کے لئے لوگوںکو کہاجارہاہے ہے برصغیرمیںخصوصاً ماہِ صیام میں گراںفروش،ذخیرہ اندوز اور مہنگائی مافیانے اتنی انھی ڈال دی کہ الحفیظ ولامان۔بیشترغریب پھلوںکی قیمتیں سن کرہی سہم سہم جاتے تھے اور حسرت بھری نگاہوںسے سیب،انگور،آلوبخارہ،خوبانی اورآم کو دیکھ کر گھروںکو لوٹ جاتے کسی کو خداکا خوف نہیں آیا یہ صورتِ حال عید الفطر سے عیدالاضحی تک برقراررہتی ہے پھر سبزیوں اور پھلوں کے دام قریباً نصف ہو جاتے ہیں

اس دوران حکومت کہاں سو جاتی ہے کہئی کچھ نہیں کہہ سکتا ایک کہانی مجھے کسی نے بھیجی آپ بھی پڑھئے اورکوشش کریں کہ زندگی میں کسی کے کام آسکیںمعصوم سا بچہ مسجد ایک طرف بیٹھا پورے انہماک سے ہاتھ اٹھا کر اپنے رب سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا – یہ خشوع تو عمر کے آخری حصے میں بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے جو اللہ نے اسکی جھولی میں ابھی سے ڈال دیا تھا – لباس پیوند زدہ تھا

مگر نہایت صاف ستھرا – اسکے ننھے ننھے سے گال آنسووں سے بھیگ چکے تھے – بہت لوگ اسکی طرف متوجہ تھے اور وہ بالکل بے خبر اپنے رب سے باتوں میں لگا ہوا تھا – جیسے ہی وہ اٹھا , میں نے بڑھ کے اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا” کیا کیا مانگا اللہ سے ” میں نے پوچھا” میرے ابا فوت ہو گئے ہیں انکے لئے جنت , میری ماں روتی رہتی ہے انکے لئے صبر , میری بہن ماں سے چیزیں مانگتی ہے اسکے لئے پیسے “
” تم سکول جاتے ہو ” میرا سوال ایک فطری سا سوال تھا –
” ہاں جاتا ہوں “
“کس کلاس میں پڑھتے ہو “
” نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا , ماں چنے دیتی ہے وہ سکول کے بچوں کو بیچتا ہوں – بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ہیں – ہمارا یہی کام دھندہ ہے ” بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رہا تھا –
” تمہارا کوئی رشتہ دار “
میں نہ چاہتے ہوے بھی پوچھ بیٹھا
” پتہ نہیں – ماں کہتی ہے غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا – ماں جھوٹ نہیں بولتی نا انکل – پر مجھے لگتا ہے میری ماں کبھی کبھی جھوٹ بولتی ہے – جب ہم کھانا کھاتے ہیں ہمیں دیکھتی رہتی ہے – جب کہتا ہوں ماں آپ بھی کھاؤ , تو کہتی ہے میں نے کھا لیا تھا – اسوقت لگتا ہے جھوٹ بولتی ہے “
” بیٹا اگر تمھارے گھر کا خرچہ مل جاے تو پڑھو گے “
” نہیں بالکل نہیں “
” کیوں”
” پڑھنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں انکل – ہمیں کسی پڑھے ہوئے نے کبھی نہیں پوچھا – قریب سے گزر جاتے ہیں “
میں حیران بھی تھا اور شرمندہ بھی –
” روز اسی مسجد میں آتا ہوں , کبھی کسی نے نہیں پوچھا – یہ سب نماز پڑھنے والے میرے ابا کو جانتے تھے – مگر ہمیں کوئی نہیں جانتا – ” بچہ زار و قطار رونے لگا” انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی کیوں ہو جاتے ہیں؟میرے پاس بچے کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا – ایسے کتنے معصوم ہونگے

جو حسرتوں سے زخمی ہیں – درد ِدل رکھنے والوںکو چاہیے کہ وہ اپنے مال سے غریبوں، یتیموںاورکم وسائل لوگوں کے سر پر شفقت کاہاتھ پھیرتے رہیں. ان کے بچوںکی تعلیمی ضروریات کا خیال رکھیں ،ان کی کفالت کیجئے تاکہ روز ِ محشر نبی اکٔرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو, اے اللہ ہمیں ایسی زندگی گزارنے کی توفیق عطا کر جس زندگی سے تو راضی ہو جائے ۔یا ذوالجلال والاکرام یااللہ ہماری دعائیں اپنی شان کے مطابق قبول فرما

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں