52

سیاسی بحران میں سیاسی حل کی تلاش !

سیاسی بحران میں سیاسی حل کی تلاش !

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جمہوریت میں اختلاف رائے کا ہونا معمول کی بات ہوتی ہے، بلکہ اس کو جمہوریت کے حسن سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، تاہم اس اختلاف رائے کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں کہ جن کی رعایت رکھنا ضروری ہوتا ہے ،اگر ان کی رعایت نہ رکھی جائے تو پھر جمہوریت کا حسن نہیں رہتا، بلکہ اس کے ماتھے

پر ایک سیاہ دھبہ بن جاتا ہے ،اس وقت یہی صورت حال موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کی ہے، کیونکہ وہ ہر قسم کی حدود و قیود سے تجاوز کرکے انتہائی خطرناک حد میں داخل ہوچکے ہیں ،حکومت اعلانیہ طور پر اپوزیشن کے خلاف عملی میدان میں آچکی ہے، جبکہ اپوزیشن بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہے، اس وقت دونوں ہی اپنا سب کچھ دائو پر لگا نے کیلئے تیار ہیں

اور واپسی کسی کے لیے بھی ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے بیچ ملک سیاسی خانہ جنگی کی زد میں ہے ،لیکن اس حولے سے دونوں جانب سے نہ صرف بے پرواہی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ، بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ملکی مفاد کو بھی دائو پر لگایا جارہا ہے ، ایک دوسرے پر الزام تاشیوں میںتمام ترحدود پار کی جارہی ہیں ،اپوزیشن کا کام ہی حکومت پر تنقید کرنا ہے

،لیکن حکومت کی تمام تر توجہ بھی ملک اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپوزیشن سے سیاسی لڑائی پر مر کوز ہے ،اس سے عوامی مسائل میں نہ صرف مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، بلکہ اس کے خاتمے کی بھی کوئی ایسی ظاہری صورت نظر نہیں آرہی ہے کہ جس کی وجہ سے مستقبل کا سیاسی منظر نامہ بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ملکی سیاست میں تقسیم بڑھتی جاری ہے، پی ٹی آئی حکومت کی تبدیلی کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ فوری انتخابات ہوں گے اور ان کے نتیجے میں نئی حکومت قائم ہو گی تو اس سے سیاسی عدم استحکام کا کسی حد تک خاتمہ ہوجائے گا،لیکن انتخابات کے بجائے حکومتی اتحاد کے اقتدار میں آنے کے بعدسے ملک کے اندر سیاسی کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہی ہورہاہے،پی ٹی آئی قیادت مسلسل فوری انتخابا ت کا مطالبہ کررہے ہیں ،جبکہ حکومتی اتحاداپنے اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ اپنی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں،دونوں کی اپنی ضد اور اپنی اَنا ہے کہ جس کے باعث ملک ایک بڑے سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے، جو کہ خدا نخواستہ کسی بڑے المیہ کو بھی جنم دے سکتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان جس کثیر الجہتی بحران کی لپیٹ میں ہے، اس سے نکلنے کی کوئی راہ حکمران طبقوں کو سوجھ ہی نہیں رہی ہے،تاہم اس بحران کے پیچھے حکومت اور اپوزیشن سمیت سب ہی کا کہیں نہ کہیںکردار رہا ہے اور سب ہی سے غلطیاں ہوئی ہیں ، اس لیے ا پنی غلطیوں پر مزید غلطیاں کرنے کی بجائے اس کا اعتراف کرکے آپس میں مل بیٹھ کر گفت و شنیدکرنے اور ملک کے مفاد میں آپس کی رنجشوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت ملک کو جس قسم کے مسائل کا سامناہے ،

ان مسائل کو قابو کرنا کسی کے ایک کے بس کی بات نہیں ہے ، اس کے لیے ملک کے اداروں کے ساتھ پوری قوم کا بھی ایک ہونا انتہا ئی ضروری ہو گیاہے ۔اس وقت حکومت کو بہت سے سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کیلئے ملک میں سیاسی ہم آہنگی اور پْرسکون ماحول کا ہو نا ضروری ہے ،لیکن اس کے برعکس ملک میں شدید سیاسی بحران بڑھتا ہی چلا جارہا ہے،

اس صورتحال میں ہر عام آدمی پریشان ہے کہ آخر حکومت کتنے محاذوں پر تنے تنہا لڑ سکے گی ، یہ سیاسی محاذآرائی کا مسئلہ زور زبردستی سے نہیں، آخرکار بات چیت سے ہی حل ہو نا ہے، سیاسی بحران میں سیاسی راستہ ہی تلاش کر نا ہے، لہٰذا حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے انتہائی قدم اْٹھانے سے پہلے ہی بات چیت کے ذریعے

صورتحال پر قابو پانے کیلئے پیشرفت کر لینی چاہئے ، اس کا م کے لیے حقیقی معنوں میں وزیر اعظم شہباز شریف کوکلیدی کردار ادا کرنا ہوگا ، اگر وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے تمام تر سیاسی جماعتوں اور اداروںکے اتفاق رائے سے کسی بھی ممکنہ سیاسی حل کے ذریعے سیاسی بحران ختم کروادیتے ہیں تو یہ انکا ایک بڑا کار نامہ ہو گااور سیاسی تاریخ میں بھی سرخرو ہوں گے ،بصورت دیگر جمہوریت بھی جائے گی اور کسی ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں