29

دنیاکی سب سے بڑی دہشت گردی

دنیاکی سب سے بڑی دہشت گردی

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

ہادی ٔ برحق ﷺ سے بغض و عناد کوئی نئی بات نہیں اسلام دشمنوں نے ہردورمیں اپنی خباثت کا ثبوت دیتے ہوئے بنی ٔ آخرالزماں حضرت محمد ﷺکی شان میں گستاخی کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے جس تیزی سے دنیا میں اسلام پھیل رہاہے یہ لوگ اندر سے خوف زدہ ہوکر بوکھلاگئے ہیں چونکہ حضرت محمد ﷺ پر کامل، اکمل اور غیر متزلزل ایمان ہی اسلام کی اساس ہے اس لئے اسلام دشمن قوتوںکا ہدف ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ذات ِ اقدس ہے

یہ ایک لحاظ سے مسلمانوں کے لئے ٹیسٹ کیس بھی ہو سکتاہے کہ مسلمان اپنے نبی پاک ﷺ سے کس قدر محبت رکھتے ہیں دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوںکے دلوں سے یہ محبت نہیں نکال سکتی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی معطل رہنما نوپور شرما کے پیغمبرِ اسلام ﷺکے خلاف گستاخانہ بیان ک بی جے پی ترجمان نوپور شرما نے ایک ٹی وی چینل پر اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ گفتگو کی

جس کی پوری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے نوپور شرما کو 5 جون کو اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ﷺ کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز ریمارکس پر بی جے پی سے معطل کر دیا گیا تھا۔ گستاخانہ بیان پر بھارت اور بیرون ملک غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ عرب ممالک میں ’بائیکاٹ انڈیا‘ مہم بھی چل پڑی جبکہ بنی ٔ آخرالزماں ﷺکے خلاف توہین آمیز ٹوئٹس کے الزام میں گرفتار کیا ہے، یہ گرفتاری بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کی معطلی کے بعد کی گئی جبکہ توہین آمیز ٹوئٹس کو حذف کر دیا گیا غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مصر، سعودی عرب اور کویت میں بائیکاٹ انڈیا کی مہم شروع ہوگئی ہے

جو غیرت ِ ایمانی کا بین ثبوت ہے۔ خلافت ِ عثمانیہ کے دور میںفرانسیسیوں نے بنی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کے لئے تھیٹرمیں ڈرامہ دکھانے کااعلان کیا خلیفہ عبدالحمید نے انہیں اس سے باز رکھنے کی وارننگ دی جب وہ منع نہ ہوئے تو انہوں نے حکومت فرانس کے خلاف جنگ کااعلان کردیا پھر فرانسیسی حکومت نے تھیٹرپرپابندی لگادی اس کے بعد ہر سال دو سال بعد مختلف حیلوں بہانوں سے فرانس،بھارت، برطانیہ امریکہ سمیت کئی ممالک میں ہادی ٔ برحق ﷺ سے بغض و عناد پر مبنی کبھی ڈرامے،

کبھی گستاخانہ خاکے اور کبھی کتابیں شائع کی جاتی ہیں مسلمان ہربنی پر ایمان رکھتے ہیں کبھی کسی مسلمان نے کسی نبی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کیا حضرت محمد ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آخری الہامی کتاب میں واضح کردیاہے کہ ہم نے آپ ﷺ کے ذکرکو بلند کردیا بلاشبہ آپ کا دشمن ہی بے نام ونشان ہے اسی لئے دنیابھرکے مسلمان چاہتے ہیں کہ انبیاء کرام کی شان میں گستاخی کو جرم قراردیاجائے ورنہ تہذیبوںکے درمیان ہولناک تصادم کا اندیشہ ہے کیونکہ ایک مرتبہ پھر اسلامو فوبیا اور توہینِ رسالت کی تازہ لہر نے ہر باضمیرکو پریشان کرکے رکھ دیاہے یورپ اور مغرب بظاہر مہذب ہونے کا لبادہ پہنے پھرتے ہیں، مگر سچی بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی شان میں

گستاخی اور شعائر اسلام کے خلاف ان کے بغض نے ان کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کردیا ہے یہ لوگ یہ جان لے کہ امت کا ہر بچہ جوان بزرگ اور خواتین سب اپنیکی ناموس کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنا جانتے ہیں فرانسیسی جریدے میں اہانت پر مبنی کارٹون کی اشاعت اور پھر اس کی سرکاری سرپرستی انتہائی ناپاک جسارت ہے ان فتنہ پروروں کی اتنی جرات ہوتی ہی اسلئے ہے کہ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے اکثر حکمران اپنی دینی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیںاگر پوری امت مسلمہ کے حکمران مکمل اتحاد و یکجہتی اور قوت کے ساتھ مل کر اس مغربی و یورپی دہشت گردی کا جواب دیں

تو مجال ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی رہبرِ انسانیت ﷺ کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا ایسے واقعات سے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے اور دنیا میں نقصِ امن کا خدشہ پیدا ہونے کے باوجود عالمی فورمز اقوام متحدہ ، او آئی سی سمیت دیگر بین الاقوامی فورمز کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ لیکن جب ردِ عمل میں کہیں کچھ ہوجائے تو پھر یہ فوراً تمام مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ عالمی اداروں کا یہ دہرا معیار اب کسی صورت قابل قبول نہیں اس لئے پوری اسلامی دنیافوری طور پر فرانس سے سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرے یہی ایمان کا تقاضاہے ۔

اسلام تمام مقدس ہستیوں کی تعظیم کا درس دیتا ہے مسلمانوںکے بارے میں بھی غیر مسلموںکو اسی جذبہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے اقوام متحدہ فی الفور اسلام کے خلاف اس نفرت انگیز بیانیہ کا نوٹس لے اور ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ آج نفرت کے جو بیج بوئے جا رہے ہیں ان کے نتائج شدید ہوں گے۔ متشدد رویوں میں اضافہ ہو گا جس سے تہذیبوں کے درمیان ہولناک تصادم سے دنیا کا امن تہہ وبالا ہوسکتاہے

کیونکہ گستاخانہ خاکوں سے پوری دنیا میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ فرانسیسی صدر کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ نفرت پر مبنی بیانیہ انسانیت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا مسلمانوںکے نزدیک نبی پاک ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کرنا دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی ہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یورپ ممالک کو دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی جرأت ہوئی مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی نے امت مسلمہ کو پریشان کیا ہوا ہے جبکہ او آئی سی یورپ کی لونڈی کا کردار ادا کر رہی ہے

اس لئے یورپ کی دہشت گردی کو روکنے کے عالم اسلام کے حکمرانوں کو متحد ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ دین اسلام کے مقدس ہستی کی توہین دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے مترادف ہے ماضی میں فرانسیسی صد ر نے اسلام کو سمجھے بغیر نشانہ بنا کر نہ صرف یورپ بلکہ دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے

اور جہالت پر مبنی بیانات نفرت ،اسلامو فوبیا، انتہا پسندی کو فروغ دیا چونکہ امریکا ہو یا یورپ یا بھارت جیسے بڑی آبادی کے حامل ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مذہبی انتہاپسندی، نسل پرستی اور سیاست میں فاشسٹ رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اقوام ِ متحدہ ، یورپی یونین، پوپ اور دنیا سے مطالبہ ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور ہم آہنگی کے لئے کردار ادا کریں حرمت ِ رسول ﷺ کا تقاضا ہے

کہ اس صورت ِ حال سے نمٹنے کے لئے تمام اسلامی ممالک ہر اس ملک سے سفارتی تعلقات منقطع کرکے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں مسلم ممالک میں مقیم تمام ایسے ممالک کے شہریوں کو نکال دیا جائے تمام مسلم ممالک بالخصوص بھارتی و فرانسیسی سفیروں کو احتجاجاًاس وقت تک اپنے اپنے ملکوں سے نکال دیں جب تک فرانس امت مسلمہ سے معافی نہ مانگے اور آئندہ اس طرح کے اقدامات کے لیے راستہ بند کرنے کے اقدامات کی یقین دہانی نہ کرائے عالمی برادری کا بھی فرض بنتاہے

کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مذہب کے نام پر اقدامات بند کرائے تمام غیر او آئی سی ممالک اسلام مخالف اقدامات سے گریز کی پالیسی اپنائیں کیونکہ فرانس میں آئے روز گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کااعلان ہوتا رہتا ہے

جس کی وجہ عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں اور گستاخان ِ رسول کی پشت پناہی یا ان کی حمایت متعلق بیانات سے نہ صرف دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات شدید مجروح ہوئے ہیں بلکہ بین المذاہب جذبات کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اس لئے بڑی طاقتوں کو حالات کی سنگینی کااحساس کرناہوگا یہ ان کے اپنے مفاد میں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں