38

سیاسی استحکام سے معاشی استحکام

سیاسی استحکام سے معاشی استحکام

ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا، معاشی استحکام نہیں آسکتا ،اس آگہی کے باوجود ملک میںسیاسی و معاشی استحکام لانے میں ناکام نظر آتے ہیں،ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا وطنِ عزیزجب سے معرض وجود میں آیاہے،یہ سیاست اور معیشت کے حوالے سے ہمیشہ ہی غیر مستحکم اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار رہاہے،چند ایک سال اچھے گزرتے ہیں

اور پھرکوئی نہ کوئی ایسا حادثہ یا سانحہ ظہورپذیر ہوجاتا ہے کہ ساری اچھی اْمیدیںخاک میں مل جاتی ہیںاور ہم اْلٹے قدم پیچھے کی جانب سفر شروع کردیتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ پا کستان بننے کے بعد چند ہی سال ایسے گزرے ہیں کہ جب مایوسیوں اور نااْمیدیوں کے بادل چھٹ پائے ہوںاور ہم ترقی و خوشحالی کے سورج کی روشن کرنیں اپنی سرزمین پر بکھرتا دیکھ پائے ہوں،اگردیکھا جائے تو ہمیں اپنی اِن ساری ناکامیوں اور نامرادیوں کے پیچھے کارفرما ہمارا سیاسی نظام ہی نظر آئے گاجو خود کسی نہ کسی وجہ سے

ہمیشہ عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتا ہے ،یہ کبھی غیر جمہوری طالع آزمائوں کے اقدامات کی وجہ سے اور کبھی ہمارے سیاستدانوں کی آپس کی چپقلش اور نفرت و اشتعال کی وجہ سے یاپھر نااہل اور ناسمجھ اْن حکمرانوں کی وجہ سے جو اپنی ضد اورانا کے باعث اپنے پیش رئوں کے تمام کاموں اور منصوبوں کی بیخ کنی اور منسوخی پر تلے ہوئے ہوتے ہیں،خواہ وہ کتنے ہی ملکی اور قومی مفاد میں کئے گئے ہوں،ہمارے انہی رویوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں کے باوجود ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر پا ئے نہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لا سکیں ہیں۔
ہر دور حکومت میں سیاسی و معاشی استحکام لانے کی باتیں بہت کی جاتی ہیں ،مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی ہے ،یہاں ہر آنے والی حکومت کی سیاسی طور پر اولین ترجیح مخالفین پر الزام تراشی اور معاشی طور پر قرضوں کا حصول رہا ہے ،اس ملک میں کسی بھی دور حکومت میں مستقل بنیادوں

پرسیاسی ومعاشی استحکام ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہم ہر شعبے میں خود کفیل ہو نے کی بجائے بیرونی دنیا کے مرہون منت ہیں ،وزیر اعظم شہباز شریف بھی میثاق معیشت اور گرینڈ ڈائیلاگ کے دعوئے کرتے رہتے ہیں ،مگراس حوالے سے ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا جاسکا ہے ،حکومت جب تک سارے بحرانوں کی جڑ تک پہنچ کر کوئی عملی اقدام یقینی نہیں بنائے گی ،اس وقت تک پے در پے آنے والے بحرانوں سے نجات حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ امر کسی سے

ڈھکا چھپا نہیں کہ ملکی معیشت کا تعلق کسی ایک پارٹی یا حکومت سے نہیں ،بلکہ اس کا براہ راست تعلق اندرونی سیاسی استحکام سے ہو تا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے معاملات پر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور حکومتوںکی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اس کے برعکس جن اقوام نے اپنے باہمی اختلافات کو قومی مفادات پر تر جیح دی ،وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئی

، ایسامحسوس ہو تا ہے کہ مو جودہ حکومت بھی معاشی مسائل سے طے شدہ طریقوں اور قوانین کے مطابق نمٹنے کے بجائے غیر روایتی اور آسان طریقوں سے پیچیدہ معاملات حل کرنے کی کوششوں میں لگی ہے ،حالا نکہ موجودہ حالات حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو آئینہ دکھانے کیلئے کافی ہیں ،لیکن یہاں پر کوئی خود کو اس آئینے میں دیکھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ۔
یہ ہماری سیاسی قیادت کا المیہ رہا ہے کہ پہلے اقتدار میں آنے کیلئے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہیں

اور بعدازاں اقتدار بچانے کیلئے الزام تراشیوں کا سہارا لینے لگتے ہیں ،اس ملک میں کبھی آمروں اور کبھی سیاسی قیادت نے جمہوریت پر شب خون مارا ہے ، اگر خوش قسمتی سے کوئی حکمران اپنی مدت پوری کر گیا تو نیا آنے والے نے اْس کے تمام کاموں کو ہی رول بیک کرنا ضروری سمجھا، خواہ اِس ملک و قوم کے مفاد میں ہی کیوں نہ رہے ہوں،ہمارے حکمران کبھی چین اور کبھی ترکی کی مثالیں بہت دیتے ہیں

،مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کامیابی اورکامرانی کی منزلیں عبور کرنے کیلئے اْن کی قوم اور ادروں نے اْنہیں کام کرنے کیلئے کتنا وقت دیا ہے ،اس کے برعکس یہاں جب سیاسی و معاشی بہتری کے کچھ آثار نمودار ہونے لگتے ہیں تو کچھ طالع آزما سارا نظام ہی الٹ پلٹ کررکھ دیتے ہیں،ملک میںمعاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام نہایت ضرور ی ہواکرتا ہے، یہ دونوں لازم اورملزوم ہیں،قوم جان لے کہ جب تک ہمارے یہاں سیاسی استحکام ممکن نہیں ہو گامعاشی استحکام بھی نہیں آپائے گا۔
ہمیں من حیث القوم سوچنا پڑے گا کہ ہم کس جانب گامزن ہیںاور کیاہمارا مقدر ہے ،کیایہی خواب ملک بنانے والوں نے دیکھے تھے؟ یہ وہ سوال ہیںکہ جن کے جواب پاکستانی عوام کے ساتھ سیاسی قیادت نے بھی سوچنے ہیں، کیونکہ ملک بھر میں حقوق کی عدم فراہمی، مہنگائی کا طوفان، اور غیر منصفانہ تقسیم ،عوام کومایوسی اور

بے یقینی کی طرف دھکیل رہی ہے اور مایوسی ہی معاشرے میں بے چینی کو ہوا دیتی ہے، پھر اسی بے چینی سے نفرت کا آلائوسلگ کر معاشرے کو نسل کشی کی جانب لے جاتا ہے ،ہمیں سوچنا پڑے گا کہ پاکستان کو نسل کشی اور خانہ جنگی کی جانب لے کر جانا ہے یا سیاسی استحکام سے معاشی استحکام کی جانب گامزن کرنا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں