کوئی دیوالیہ ہونے سے بچاپائے گا !
اور ایسے اقدامات سے گریزاں دکھائی دیتی ہے کہ جو آیندہ انتخابات میں ان کی مقبولیت اور ووٹ بینک پر اثرانداز ہوں، لیکن معاشی دیوالیہ پن سے ملک کو نکالنے کے لیے جن سخت اقدامات کی ضرورت ہے، وہ کوئی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ ہی اٹھا سکتی ہے، نگران حکومت ایسے اقدامات کی مجاز ہوتی ہے نہ ہی ان اقدامات کو بین الاقوامی اداروں کی تائید حاصل ہوتی ہے، حکومت نے اپنا زیادہ وقت شش و پنج اور اپنے کولیشن پارٹنرز کی
مشاورت میں گزار دیا،اس کا سیاسی فائدہ پی ٹی آئی نے اٹھانے کی بھرپور کوشش کی ہے، انھوں نے اپنے لانگ مارچ کی ناکامی اور دھرنے کے التوا کے باوجود زبانی گولہ باری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،جبکہ حکومت سیاسی پسپائی کے ساتھ بروقت فیصلہ سازی میں بھی ناکام نظر آئی ہے۔
تحریک انصاف ایک طرف موجودہ حکومت کو برسر اقتدار لانے اور انھیں اقتدار سے محروم کرنے والوں کے خلاف تابڑ توڑ حملے جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری جانب غلامی سے آزادی کابیانیہ پختہ کیا جارہا ہے ،
عوام سابقہ حکومت کے ساتھ ہو نے والی سازشی زیادتی کا جہاں یقین کر چکے ہیں ،وہیں غلامی سے آزادی کے بیانیہ کوبے انتہا سراہا جارہا ہے ،عوام کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی تحریک آزادی کے ساتھ ہے اور ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار نظر آتی ہے ،اس کا اظہار جلسے اور لانگ مارچ میں کیا جا چکا ہے اور اب آئندہ ہونے والے لانگ مارچ کی تیاریوںسے لگ رہا ہے کہ سیاسی تصادم مزید بڑھے گا۔
یہ صورت حال ایک طرف سیاسی عدم برداشت کے کلچر کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے تو دوسری جانب عام سیاسی کارکن جو پہلے ہی اپنے سیاسی رہنماؤں کی محبت و جذبات کی رو میں تشدد و قانون شکنی کی ترغیب پا رہا ہے ،یہ سب کچھ ملک کی سالمیت کی ضمانت ہے نہ ہی قومی یکجہتی کے ماحول کی برقراری کے لیے سودمند ہے، لہٰذا سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی قومی ذمے داری ہے
کہ انہیں اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے ایوان میں واپس آ جانا چاہیے اور خود پی ٹی آئی کے کچھ ارکان بھی درون خانہ اس بات کے حق میں دکھائی دیتے ہیں،لیکن عمران خان کسی صورت ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں ،اُن کے خیال میں پارلیمان میں آنے کا مطلب مسلط کردہ حکومت کو ماننا ہے، جوکبھی نہیں کریں گے،
اتحادی حکومت اقتدار میں رہنے اور خود کو بچانے کیلئے ساری کڑوی گولیا ں نگلنے کو تیار ہے ،تاہم پا کستان کے سیاسی و معیشت بحران کے بارے میں جو مفروضے قائم کئے جا رہے ہیں اور جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے ، وہ بے بنیاد نہیں ہیں،سیاسی قیادت کے ساتھ پوری قوم کو بھی اندازہ ہو چکاہے کہ مقروض معیشت کا آخر کار انجام کیا ہوتا ہے اور قرضہ دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کی باگ ڈور جن عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے ، ان کے پاکستان کے بارے میں کیا ارادے ہیں ؟
اگر ہم اس مرتبہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے پر مجبور ہیں اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام لینا ضروری ہے تو اس سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹلے گا نہ معاشی استحکام آئے گا،بلکہ اگلے سال اس سے زیادہ شدیدخطرہ ہو گا اور یہ سلسلہ مزید بڑھتا ہی رہے گا۔
اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ سیاسی استحکام سے خود انحصاری کا ہے، لیکن پا کستانی سیاسی قیادت جب تک محاذ آرئی جاری رکھیں گے
اس میں سیاسی قوتوں کا کرداراہمیت کا حامل ہے ،ملک کی سیاسی قوتیں ہی باہمی اتفاق رائے سے حالات ساز گار بنا سکتی ہیں،اگر ایسا نہ کیا گیا تو دیوالیہ ہونے سے صرف ایک یا دوبار ہی بچا جا سکے گا، تیسری بار آئی ایم ایف اور اس کے سرپرست اپنے اصل مقصد پر آجائیںگے اور پھر ملک دیوالیہ ہونے سے کوئی بھی بچا نہیں پائے گا