ماحولیاتی تبدیلیاں اور حکومتی اقدام!
تو دوسری جانب مہنگے پٹرول و ڈیزل کی وجہ سے کسانوں کیلئے ٹیوب ویل چلانا بھی مشکل ہو گیا ہے ،اس کے نتیجے میںابھی سے رپوٹس آنے لگی ہیں کہ اس بار فصلوں کی کاشت کم رقبے پر ہو گی ،اس کے اثرات عوام کو اگلی فصل میں کمی اور قیمتوں میں بے انتہا اضافے کی صورت میں بھگتنا پڑیں گے ۔
اس میں شک نہیں کہ ملک بھر میں مسائل میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہی ہورہا ہے ،ایک طرف بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب اس سے فصلیں بھی متا ثر ہو رہی ہیں ،اس سال ریکارڈ گرمی پڑنے سے گندم کی فصل شدید متاثر ہوئی ہے ،اس بار ملک میںمطلو بہ مقدار میں گندم پیدا نہیں ہو سکی ،اس وقت چالیس لاکھ میٹر ک ٹن کمی کا سامنا ہے
اور یہ گندم باہر سے منگوانا پڑے گی ،حکومت کیلئے عام حالات میں کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو تا ،لیکن روس یو کرئن جنگ کے باعث جس طرح غذائی بحران سر اُٹھا رہا ہے اور گندم کی قلت کے ساتھ بلند نر خوں کا سامنا ہے،ایسے میں گندم در آمد کرنے سے زر مبادلہ پر دبائو مزید بڑھے گا ۔
اتحادی حکومت اقتدار میں آنے سے قبل بدلتے حالات سے بخوبی آگاہ تھی ،مگر اس کی تر جیحات میں عوامی مسائل کے تدارک کی بجائے حصول اقردارتھا ،اس لیے سیاسی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز رہی ،لیکن موسمی تبدیلیوں کو نظر انداز کردیاگیا
،اس کا سارا نقصان کسان اور عوام بھگت رہے ہیں ،ایک طرف بڑھتے درجہ حرات اور پانی کی کمی کی وجہ سے فصلوں کا نقصان ہورہا ہے تو دوسر جانب جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ،بلو چستان میں چلغوزے کا کا بڑا جنگل جل کر راکھ ہو گیاتو مری کے جنگلات نے آگ پکڑ لی ،ایک بعد ایک جنگل میں آگ لگنے کے واقعات بہت سے خدشات کا بھی باعث بن رہے ہیں ، پا کستان میں پہلے ہی جنگلات کا انتہائی
نصف بھی زراعت پر وسائل خرچ کیے جاتے تو آج ہم نہ صرف خوراک میں خود کفیل ہوتے ،بلکہ زرعی مصنوعات بر آمد کرکے بھاری زر مبادلہ بھی کما سکتے تھے،ہماری حکومتوں کی تر جیح زرعت سے زیادہ ہائو سنگ سوسائٹی کے این او سی دینا ہے ،کیو نکہ این او سی لینے والی اشرافیہ اُن کے ساتھ ہی پارلیمان میں بیٹھے ہیں ،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ زرعی رقبہ جات بڑی تیزی سے کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہورہے ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں پر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے موثر اقدامات کررہی ہے ،مگر ہمارے حکمران سازش ہے کہ مداخلت کے چکر سے باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، عوام کا بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری اور ما حولیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر غذائی قلت سے جینا عذاب ہورہا ہے ، لیکن حکومت سب باتوں سے بے پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی خشنودی میں عوام کے گلے پر ہی چھری چلائے جاررہی ہے
،حکومت کو چاہئے کہ بد لتے حالات میں سیاسی تبدیلیوں پر توجہ کم کرکے ماحولیاتی تبدیلوں پر اپنی تو جہ مر کوز کرے ،فوری طور پر شہروں کی حدود کا تعین کر کے بڑے شہروں کے پھلائو پر مکمل پا بندی لگائے ،زرعی رقبہ جات پر بھی تعمیراتی پر پا بندی ہو نی چاہئے ،صنعتی علاقوں کیلئے ایسے علاقوں کا انتخاب کیا جائے کہ جہاں کی زمینیں زراعت کیلئے موزوں نہ ہوں ،اسی طرح بڑے ڈیموں کی تیزی سے تعمیر کے ساتھ چھوٹے ڈیم بھی تیزی سے تعمیر کر نے ہوں گے ،ورنہ ابھی زراعت کیلئے پانی دستیاب نہیں ،
درجہ حرارت میں اضافہ اور بارشوں کے اوقات میں تبدیلی اورزرعی اجناس میںکمی ،کوئی چیز بھی ہمیں سوچنے پر مجبور نہیں کر رہی ہے کہ جس نے سوچا وہ عملی اقدام کے لیے کیوں نہیں بڑھا اور جس نے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، وہ کیوں کر کے کامیاب نہ ہوسکا؟ کیا قدرت کی ان نعمتوں کی ہمارے لیے کوئی قدرو قیمت مقررنہیں کی گئی؟ ہمیں سوچنا ہوگا اور اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا ،وگرنہ آنے والی نسلیں مزید مشکلات سے دو چار ہوں گی اور ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی