32

اسمبلی منڈی اور عوام کی چیخ وپُکار

اسمبلی منڈی اور عوام کی چیخ وپُکار 

محمد آصف سلطانی
بانو قدسیہ صاحبہ کا ایک ناول ہے ”راجہ گدھ” اس ناول کا موضوع حلال اور حرام میں فرق اور اسکا انسانی زندگی پر اثر ہے ناول میں انسان کو گدھ ”ایک پرندہ جو مردہ جانوروں کو نوچ کھاتا ہے” سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کیونکہ جس طرح گدھ مردار جانوروں کا گوشت کھاتا ہے اسی طرح انسان بھی اقتدار کے نشے میں دوسروں کا حق چھینتے ہوئے اور حرام کما کر اپنا پیٹ بھرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے۔
میرے خیال سے اردو ادب کے نامور شاعر محمد علوی صاحب بانو قدسیہ کا ناول اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کو مدِنظر رکھ کے ہی لکھا ہوگا:

قطب صاحب کھڑے ہیں سر جھکائے
قلعے پر گدھ بہت ہی شادماں ہیں!!

تقریباً یہاں اس شعر میں شاعر محمد علی نے قطب صاحب کو خلائی مخلوق مطلب نیوٹرل امپائر سے جوڑا ہوگا جو فقط نام کے نیوٹرل ہیں کام کے نہیں کیونکہ ایک جنرل 22 کروڑ عوام کو بکریوں کی طرح ہانک رہا ہے ‘ قلعے کو مملکتِ خداد پاکستان اور گدھ ملکِ پاکستان میں موجود اقتدار کے نشے میں دُھت اشرافیہ سے جوڑا ہوگا جو ملکِ پاکستان کی غریب عوام کو نوچ نوچ کر کھا رہی ہے۔
اس ناول ”راجہ گدھ” میں جنگل کے پرندوں کی کہانی بیان کی گئی ہے

کہ کس طرح جنگل کے تمام پرندے اکٹھے ہو کر گدھ کو ربّ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود تجاوز کر کے حرام کھانے پر جنگل بدر کر دیتے ہیں۔ یہ آفاقی موضوع اور لازوال کرداروں پر مشتمل ناول ہے جو روحانیت اور باطنی دنیا کی طرف جانے والے کئی راستے کھولتا ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق ”راجہ گدھ” میں قابل اعتراض اور بیہودہ باتیں شامل ہیں جو ذہنوں کو خراب کرتی ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے

تو وہ تمام باتیں اور حوالے جنہیں بیہودہ کہا گیا ہے وہ ہمارے معاشرے کے تلخ حقائق اور تاریک پہلو ہیں جو کہ ہماری اصلاح کیلیے اجاگر کیے گئے ہیں۔ ہمارے اردگرد اور ہمارے درمیان ہی قیوم جیسے کئی کردار موجود ہوتے ہیں جو اقتدار کی حوس میں گدھ بنے بیٹھے ہیں اور دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ بنانے اور اپنے بینک بیلنس بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ پروفیسر سہیل کا کردار دو قسم کے لوگوں کی نشاندہی کرتا ہے ایک وہ لوگ جو شرافت کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں

جبکہ دوسری قسم کے وہ قابل لوگ ہوتے ہیں جو ملک و قوم کا سرمایہ بن سکتے ہیں لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی قدر نہیں کرتے۔بلکہ ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو اسمبلیوں میں پہنچتے ہی قوانین کی ماں بہن ایک کر دیتے ہیں اور اسے اپنے گھر کی راکھیل سمجھتے ہیں۔ اقتدار کی حوس میں جو من کرتا ہے کرتے چلے جاتے ہیں اور بھاشن ایسے دیتے ہیں جیسے ان کی طرح کا کوئی بھی محبِ وطن نہیں ہوگا

ابھی کچھ دن پہلے مریم اورنگزیب نے اعلان کیا کہ حکومت اپنی طرف سے ہر مستحق کو 2000 ماہانہ دے گی جنکا اپنا ایک دن کا خرچ دس دس ہزار سے بھی زیادہ ہو اسطرح کا اعلان کرتے ہوئے اسے شرم تو نہیں آئی ہوگی پھر بھی کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیاء ہوتی ہے لیکن انہیں کیا معلوم یہ کیا ہوتی ہے۔ آخر 18000 ماہانہ کمانے والا عام شہری ہر طرح کا ٹیکس ادا کرنے کے باجود اس مشکل وقت میں پھر بھی فقط اور فقط غریب ہی کیوں قربانی دے۔ جو اشرافیہ گدھ کی طرح شروع سے ہی ملکِ پاکستان کو نوچ نوچ کر کھا رہا ہے

وہ اس مشکل وقت میں اپنے پروٹوکول کو ختم کر کے اپنی مراعات کم کر کے اس ملک کیلیے قربانی دیں جسے نوچ نوچ کر آج صاحبِ تُمندار بنے ہیں یہ جو ایک ایک وزیر مشیر حکومتی خرچے پہ لاوّ لشکر لیے پھرتے ہیں۔
اردو کا مشہور افسانہ نگار سعادت حسن? منٹو لکھتا ھے کہ میں شدید گرمی کے مہینے میں ہیرا منڈی چلا گیا جس گھر میں گیا تھا وہاں کی نائیکہ 2 عدد ونڈو ائیر کنڈیشنڈ چلا کر اپنے اوپر رضائی اوڑھ کر سردی سے کپکپا رہی تھی۔
میں نے کہا کہ میڈم دو A/C چل رہے ہیں آپ کو سردی بھی لگ رہی ہے آپ ایک بند کر دیں تا کہ آپ کا بل بھی کم آئے ?گا،

تو وہ مسکرا کر بولی کہ،
”اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے”

منٹو کہتا ہے کہ کافی سال گزر گئے اور مجھے گوجرانوالہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کسی کام کیلیے جانا پڑ گیا شدید گرمی کا موسم تھا، صاحب جی شدید گرمی میں بھی پینٹ کوٹ پہنے بیٹھے ہوئے تھے اور 2 ونڈو ائیر کنڈیشنر ?فل آب و تاب کے ساتھ چل رہے تھے اور صاحب کو سردی بھی محسوس ہو رہی تھی..
میں نے کہا کہ جناب ایک A/C بند کر دیں تاکہ بل کم آئے گا تو صاحب بہادر بولے،
”اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے”

منٹو کہتا کہ میرا ذہن فوراً اسی محلہ کی نائیکہ کی طرف چلا گیا کہ دونوں کے مکالمے اور سوچ ?ایک ھی جیسے تھی،
تب میں پورا معاملہ سمجھ گیا۔

یعنی اس ملک کے تمام ادارے ایسی ہی نائیکہ سوچ رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔ اب اس نازک حالات میں فقط عوام کی قربانی دینے کی بجائے اشرافیہ کو قربانی دینی ہوگی آپ بیشک اپنے کپڑے نہ بیچیں فقط اپنی مراعات اپنے پروٹوکول ختم کرکے اپنی عیاشیوں کو تُرک کرکے اپنی تجوری کو توڑ کے

ملک کا قرض اُتارنے میں پہل کریں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہنگائی سے تنگ عوام اس ناول ”راجہ گدھ” کی طرح ربّ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود تجاوز کر کے ملک کو نوچ نوچ کر حرام کھانے و غریب عوام کا خون چوسنے اور قوانین کی ماں بہن ایک کرنے پہ تمہارے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹے اور ملک بدر نہ کر دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں