اپنےجرات مندانہ ایمانی جذبہ کو ثابت کرنے کا وقت 42

قدرت کا نیم قانون ہماری سمجھ سے بالاتر

قدرت کا نیم قانون ہماری سمجھ سے بالاتر

نقاش نائطی
۔ +966562677707

اگنی پتھ حکومتی اسکیم کے خلاف، عوامی ہنگامہ آرائی پر رویش کمآر کا تجزیہ اکنی پتھ ہنسا پر ابھیشار شرما کا تجزی بچپن میں ہر مسلمان بچے کو جو چھ کلمے پڑھائے جاتے تھے ان میں قدرت پر یقین سب سے اہم کلمہ ہوا کرتا تھا ویسے کہنے کو تو، ہر مسلمان قدرت پر مکمل یقین کا اظہار کرتا پایا جاتا ہے،

لیکن فی زمانہ مسلمان کتنے فیصد واقعتا” قدرت پر یقین کامل رکھتے ہیں، اس کا اندازہ، مساجد میں صبح کی نماز کی صفحوں میں مسلم نمازیوں کی تعداد، اور ھندو یاک بنگلہ دیش کے مختلف گاؤں شہروں میں موجود، درگاہوں مزاروں پر ہم مسلمانوں کے جم غفیر دیکھنے ہی سے ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ کتنے فیصد ہم مسلمان اپنے اللہ، مالک دو جہاں کی قدرت،اسکی لامحدود طاقت اوردنیوی معاملات میں، اس کے عمل دخل پر یقین کامل رکھنے ہیں

ہمیں یاد پڑتا ہے ڈیڑھ ہزار سال پہلے بعثت رسول پاک ﷺ سے کافی پہلے، انکے چچا عبدالمطلب جب دین ابراہیمی کے دور کے، اللہ کے گھر کعبہ اللہ شریف، کے والی ہوا کرتے تھے۔ یمن کا بادشاہ ابرھا نعوذ باللہ، اللہ کے گھر خانہ کعبہ کو مسمار کرنے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ، مکہ کے قریب منی کی وادیوں میں آخر آکر خیمہ زن ہوا تھا۔ مکہ کے بڑے سرداروں کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ منی کی وادیوں میں چرنے چھوڑی جاتی تھیں

ان میں والی حرم مکہ عبدالمطلب کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ بھی منی میں چر رہی تھیں ۔ جسے ابراھا کی فوج نے اپنے قبضہ میں لیا ہوا تھا۔ مکہ والوں کو حملہ آور ابراھا کے منی کی وادی میں خیمہ زن ہونے کی خبر سے پریشانی لاحق تھی ہی، عبدالمطلب تک جب یہ خبر پہنچی کہ اسکے اونٹ و بکریوں کو ابراھا کے لشکر جرار نے اپنے قبضہ میں لیا ہوا ہے، تو وہ گھوڑے پر بیٹھ کر منی کی وادی کی طرف چل نکلے،

ابرھا تک اس کے مخبروں نے خبر کردی کہ مکہ کے بڑے خاندان قریش کا سردار ابراھا سے ملنے آرہا ہے، ابراھا نے سوچا شاید مکہ والوں کی جان کی آمان اور کعبہ اللہ شریف کی حفاظت کے لئے والی حرم آیا ہے۔ لیکن جب عبدالمطلب ابراھا کے سامنے پہنچے تو،انہوں نے خلاف توقع، اپنے اونٹ و بھیڑ بکریوں کے بارے میں سوال کیا،جنہیں ابرھا کی فوج نے اپنے قبضہ میں لیا تھا۔ ابراھا کو اس غیر متوقع سوال پر بڑی حیرت ہوئی

اور آس نے تعجب سے پوچھا کہ “تم کیسے سردار مکہ ہو؟ تمہیں اپنے مویشیوں کی فکر ہے؟ کعبہ اللہ کی فکر نہیں؟ جسے مسمار کرنے میں اتنی دور یمن سے ہاتھیوں کے لشکر جرار ساتھ مکہ کی پہاڑی دامن تک پہنچ چکا ہوں؟ یہ سن کر عبدالمطلب نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے پنوں میں سنہری حرفوں سے لکھا ہوا ہے۔

بھلے ہی بعثت رسول ﷺ سے پہلے دین ابراہیمی کے ماننے والے، مکہ کے باشندگان، کعبہ اللہ میں رکھے 360 بتوں کی پوجا، اللہ کے درمیان وسیلے کے طور کیا کرتے تھے۔اور اپنے رب دوجہاں پر، انہیں آج کے ہم مسلمانوں سے زیادہ یقین کامل تھا

ابرھا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، بڑے ہی متانت و وقار سے عبد المطلب نے کہا “آپ کی افواج نے جو میرے اونٹ و بکریاں اپنے قبضہ میں لے رکھی ہیں، میں انکا مالک ہوں، مجھے ان کی فکر ہے، رہا اللہ کے گھر کعبہ اللہ کی حفاظت کا معاملہ، اسکے گھر کی حفاظت وہ خود کریگا اور یقینا وہ مالک دو جہاں اللہ رب العزت، اس کے گھر کی حفاظت کرنے پر قادر و مطلق ہے” یہ سن کر ابرھا کو تعجب و پریشان تو ہوا ،

لیکن اس نے اپنے حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے، اپنے سالار سے کہا “قریش کے سردار کی تمام بھیڑ بکریاں ان کے حوالے کی جائیں، میں دیکھتا چاہتا ہوں کہ ان کا خدا کل میرے قہر سے اپنے گھر کو مسمار ہونے سے کیسے بچاتا ہے”

اور پھر دنیا نے جو دیکھا عرب کی تاریخ میں تو لکھا ہوا ہے ہی، لیکن کچھ سالوں بعد بعثت رسول مکی تاجدار رحمت العالمین محمد مصطفی ﷺ پر اتاری گئی آسمانی کتاب قرآن مجید میں پوری ایک سورہ فیل اتار کر، اس پورے واقعہ کو خود اللہ رب العزت نے تاقیامت آنے والی انسانیت کو، اپنی قدرت کا نمونہ تفصیل سے بتایا ہے کہ، جب دوسرے دن صبح ابرھا اپنے ہاتھیوں کے لشکر جرار کے زعم میں ،کچھ کلومیٹر دور کعبہ اللہ کو مسمار کرنے نکلا تو ابھی کعبہ اللہ سے سٹے پہاڑی سلسلہ کے قریب، منی کی وادی ہی میں تھا

کہ اللہ رب العزت کے حکم سے ننھی مخلوق ابابیل کے غول کے غزل اپنی ننھی چونچوں میں کنکریاں اٹھائے ابراھا کے لشکر پر آتے اور کنکریاں گرادیتے ہوئے، دوبارہ کنکریاں چن لانے چلے جاتے تھے۔ان ننھنے ابابیل کی گرائی گئی کنکریاں گویا زمانہ عصری ترقی یافتہ میزائل کا کام کرتی تھیں وہ ننھی کنکری جس کسی ابرھا کے لشکر کے فوجیوں یا ہاتھیوں پر گرتی تھیں آگ کے گولے کی طرح ان کے جسموں کو جلاتی پار نکل جاتی تھیں۔

انسان تو انسان دیوھیکل ہاتھی بھی، ان کنکریوں سے زخمی ہوئے، پاگل ہوکر، اپنے ہی لشکر کو روندتے بھاگنے پر مجبور ہورہے تھے۔ اور یوں یمن سے مکہ 818 کلومیٹرطویل سفر طہ کرکے کعبہ کو مسمار کرنے آیا ابرھا کا ہاتھیوں والا لشکر جرار، کعبہ اللہ سے محض چند کلومیٹر دور، اللہ کے عذاب کا شکار تباہ و برباد ہوگیا تھا

آج یہاں 1500 سو سال قبل کے ابرھا کے لشکر والا واقعہ بیان کرنے کا مقصد، اس 8 سالہ مسلم مخالف آرایس ایس، بی جے پی سنگھی مودی بریگیڈ راج میں، بھارت کی آبادی کے پانچویں بڑے حصہ ہم 20 فیصد لگ بھگ 30 کروڑ مسلمانوں کو، کبھی انکی 500 سو سالہ تاریخی بابری مسجد،عدلیہ پر غیر ضروری دباؤ ڈالے،قاتل بابری مسجد ٹولے ہی کے حوالے، بابری مسجد زمین دیئے جانے والا معاملہ ہو،

تو کبھی مسلم پرسنل کی معرفت، ہم بھارتیہ مسلمانوں کو، بھارت کے دستور العمل میں،اپنے مذہب کے اقدار مطابق عمل آوری کی اجازت دیئے جانے کے باوجود، اپنی اردھانجلی اپنی شریک حیات کو زندگی بھر ٹرپانے و ترسانے والا ہی، کروڑوں مسلم نساء کا ہمدرد و غمخوار بننے کا ناٹک رچائے،ٹرپل طلاق آرڈیننس جاری کرنے کا معاملہ ہو، یا اسکول کالج ڈریس کوڈ کے بہانے، ہزاروں سال سے، خود سے حجاب کرنے والی مسلم نساء طالبات کو، حجاب سے ماورا رکھنے کے یا اعلی عصری تعلیم ہی سے دور رہنے کے قوانین ہوں،

یا کئی سو سال سے مسجدوں کے میناروں سے،مائکروفون پر دی جانے والی آذان پر، اپنے گرگوں کی مدد سے، اعتراض اٹھا، دیش بھر میں مسلم منافرت پھیلانے کے معاملات ہوں، ہم مسلمانوں کو ہر گزرتے دن کے ساتھ رسوا و مجبور کرتے پس منظر میں بھی، ہم بھارتیہ مسلمان صبر کا دامن تھامے، ایسے تیسے جی رہے تھے۔ صرف اور صرف ہم مسلمانوں کو غیض و غضب کا شکار بنا، ہمیں احتجاج کرنے سڑکوں پر اتارنے ہی کی سازش کے تحت، اپنے ترجمان نپور شرما اور نوین جندل کو آگے کرتے ہوئے،

مسلمانوں کے نبی خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس پر گستاخی کرتے ہوئے، نہ صرف ہم بھارتیہ 30 کروڑ مسلمانوں کو، بلکہ عالم کے 200 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اور بھارت کے مسلمان جب ان دونوں شاتم رسولﷺ کو سزا دینے کی مانگ سے گذشتہ بعد نماز جمعہ، پرامن احتجاج کررہے تھے، اپنے ہی گرگوں سے مسلمانوں پر پھتر چلوا، مسلم جم غفیر کو غصے میں بے قابو کرتے ہوئے، اپنی پولیس کے ہاتھوں لاٹھی چارج و فائرنگ کروا، دو معصوم نوجوانوں کو شہید کیا ہے،

بلکہ متعدد مسلمانوں کو زخمی بھی کیا ہے اور یہی نہیں،دستور ھند میں دئیے گئے حق آزادی احتجاج،خاموش احتجاج کرنے والے ذمہ داروں کے گھروں کو بلڈور سے مسمار کرتے ہوئے، سنگھی حکومت نے، ایک طرف قانون و عدلیہ کا مذاق اڑایا ہے،بلکہ اسٹیٹ دہشت گردی کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔ بریلی مکتب فکر کے مولانا توقیر رضا نے آج 17 جون بعد نماز جمعہ خاموش احتجاج کی دعوت جو دی تھی

اور یوپی یوگی حکومت نے اپنے حکومتی طاقت کے زعم میں، خاموش احتجاجیوں کو طاقت کے بل پر کچلنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا کہ خالق مالک دوجہاں نے، اپنے محبوب خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کی گستاخی کرنے والی، سنگھی حکومت کے ہاتھوں، افواج ھند کے لئے عارضی بھرتی اسکیم “اگنی پتھ” کے بہائے، کچھ ایسا کام کروایا ہے ،کہ کل گذشتہ جمعہ مسلم خاموش احتجاجیوں پر سنگھی پولیس کے ظلم و انبساط کو صحیح ٹہرانے والے ھندو نوجوانوں ہی نے، آج سنگھی حکومتی اگنی

پتھ اسکیم کے خلاف، نہ صرف خاموش بلکہ ریل و سرکاری املاک جلانے تباہ کرنے جیسے، دہشت گردانہ احتجاج سے، سنگھی مودی بریگیڈ کی ناک میں دم کرکے رکھ دیا ہے ۔ الحمد للہ مو لانا توقیر رضا صاحب کے بشمول تمام مکتبہ فکر کے مسلم علماء کرام نے،اگنی پتھ خلاف شروع ہوئے احتجاج تناظر میں، آج بعد جمعہ ہونے والے پرامن احتجاج کو ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے،

نہایت عقل دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ، گذشتہ جمعہ مسلمانوں کے پرامن احتجاج کرنے والے کئی سو نوجوانوں کو جیل میں بند کئے ان ہر دہشت گردی کے الزامات لگانے والے اور انکے گھروں تک کو مسمار کرنے والے اور مسمار کئے جانے والے، ان سنگھی حکمرانوں کو، اب اللہ رب العزت نے اگنی

پتھ کے معاملے میں انہیں پھنسانے ہوئے، انہیں خود 140 کروڑ دیش واسیوں اور عالم کے 700 کروڑ انسانوں کےسامنے امتحان میں مبتلا کیا ہے کہ پرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر سختی کرنے والے، سنگھی حکمران اگنی پتھ حکومتی اسکیم کے خلاف سرکاری املاک ریل و بس لاریوں کوآگ کے حوالے کرنے والے شدت پسند ھندو نوجوانوں کے خلاف وہ کیا سزآئیں دیتے ہیں، کیا ان احتجاجیوں کے گھروں کو بھی مسمار کیا جائیگا یا نہیں؟ شدت پسند ھندو نوجوانوں کے خلاف سختی سے نہیں بھی نپٹیں گے، تو عالم کی انسانیت کے سامنے بھارتیہ سنگھی حکومت صرف اور صرف مسلم دشمن ہی ثابت ہو جائیگی
ہم بھارتیہ مسلمانوں کو اللہ رب العزت کی ذات اقدس پر مکمل یقین کامل و اسکی قدرت پر مکمل بھروسہ و ایمان ہونا چاہئیے کہ کیسے اس نے، ان سنگھی حکمرانوں کو، غلط اقدام اٹھواتے ہوئے، خود انکے اشاروں پر ناچنے والے ھندو نوجوان پیڑھی کو،

انکے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلوادیا ہے اور ریل و سرکاری املاک انکے ہاتھوں جلواتے ہوئے ،140 کروڑ بھارت واسیوں کے ساتھ ہی ساتھ عالم کے 700 کروڑ لوگوں کے سامنے انہیں رسوا ہونے کا انتظام کیا ہے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں