59

کثرت تعداد کے باوجود عالم کے مسلمان معشیتی طور پریشان کیوں ہیں؟

کثرت تعداد کے باوجود عالم کے مسلمان معشیتی طور پریشان کیوں ہیں؟

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

ا.پنے آپ کو سقم زد کرتے ہم اعلی تعلیم یافتہ مگر جاہل مسلمان اللہ نے سورج کی روشنی والے دن کو، حصول رزق کے لئے، اور شب کی تاریکیوں والے حصہ کو نیند لیتے ہوئے آرام کرنے کے لئے، تخلیق کیا ہوا تھا، لیکن زمانے کہ جدت پسندی اور ٹمٹاٹے بجلی کے قمقمون نے، خصوصا فی زمانہ سائبرمیڈیا مصروفیات نے، ہم انسانوں کو، خصوصا عالم کے ہم مسلمانوں کو، اپنی دن بھر، ماند رہتی اورتاریکیوں میں چمکتی،

اپنی آنکھوں سے، دن بھر کا زیادہ وقت سونے اور رات بھر جاگنے والے آلوؤں کی طرح، دن ڈھلے تک سونے اور پوری پوری رات، کسی نہ کسی بہانے جاگنے والے،ہم جیسوں کے لئے،ہماری صحت کے متعلق اپنے 14 سو سال قبل اتارے گئے، قرآن مجید میں، رات بھر جاگنے کے نقصانات سے ہمیں آگاہ کردیاتھا،لیکن ہم مسلمان، قرآن پر عمل پیرائی سے، اپنی جان بچانے کے لئے ہی شاید، قرآن سمجھ کر پڑھنے سے جان چھڑاتے پائے جاتے ہیں

قرون اولی کے ہمارے جد امجد خلفاء راشدین، تابعین، تبع تابعین کے زمانے تک، طلوع آفتاب سے غروب آفتاب کو، دن تصور کیا جاتا تھا اور غروب آفتاب کے بعد سے دوسرے دن سورج نکلنے تک کو شب مانا جاتا تھا۔ عموما”قبل مغرب گھر باہر کے سب کام ہی نہیں، نمٹائے نہیں جاتے تھے، عموما شب کے کھانے سے بھی نمٹ لئے جاتے تھے اور عشاء کے بعد تو بستر ہی پر عملا سوتے ہوئے، شب کی تاریکیوں سے فیض یاب ہوئے جاتے تھے۔

ابھی چار دہے قبل تک، ہمارے بچپن میں،قبل مغرب، رات کے کھانے سے فارغ ہونے کا رواج عام مسلم معاشرے میں رائج تھا۔ جسے زمانے کی جدت پسندی نے،اسلامی اقدار ترک کرنے سے بچنے کے لئے، ہمارے پشتینی جدی ماؤں کے،جین مذیب اقدار جلتی شمعوں کے سامنے، پلٹ پلٹ کر مرنے والے پروانوں کو،بچانے کا بہانہ بنا،شب کے دوسرے تیسرے پہر تک، جاگنے کی عادت معاشرے میں ڈالی گئی تھی۔ اب تو عالم یہ ہے

کہ حیدر آباد چار مینار کے مسلم علاقوں سمیت، ممبئی منارہ مسجد،بھنڈی بازار، دہلی جامع مسجد کے آس پاس والی مسلم آبادیوں کے ساتھ ہی ساتھ، اکثرمسلم اکثریتی شہروں گاؤں میں،شب کے تیسرے پہر تک چاء قہوے و مختلف کھانے مہیا کرنے والے تجارتی مراکز کھلے رکھے، اپنے جدت پسند زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا تفخر، شب بھر جاگ کر، پیش کئے جاتے ہیں۔اس میں سے کتنے فیصد شب گزاری کے باوجود فجر کی نماز پڑھ کر،اپنے آپ کو حوالہ بستر کرتے ہیں اس کا اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے

۔اس سے اولا” خلاف شرع، وخلاف ماحولیات، عمل پیرا رہتے، ہم اپنے اپنے اجسام کو، شب کی تاریکیوں میں ہمارے جسم میں قدرت کے بنائے کارخانہ حیات، مختلف اقسام کے اسقام سے لڑنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے عمل سے محروم رکھے، زمانے کے گرد وغبار، و جدت پسند ادویات سے بنی، اشیاء خرد و نوش کو مستقل استعمال کرتے ہوئے، ماحولیات کے زیر اثر، نت نئی اسقام کا گھر،اپنے جسم کو بنائے

،جہاں جی رہے ہوتے ہیں تو وہیں پر، ہمارے دینی اقدار ، صبح طلوع آفتاب بعد، آسمان سے بحکم رب کائینات، ایک مخصوص فرشتے کے آسمان کی نچلی سطح تک اترآتےہوئے،ہم انسانوں کو گھروں سے نکل، رزق تقسیم کرتے اپنے رب سے، اپنے اور اپنے آل کے مستقبل کے لئے، رزق محجوز کرنے سے کترائے ہوئے، بستروں میں دبکے سوتے ہوئے، اپنے اور اپنی آل کے لئے، رزق کے کھلے دروازوں کو،خود سے بند کررہے پائے جاتے ہیں

جس زمانے کی جدت پسندی کی دہائی دی جاتی ہے، کیا ہم ان حقائق سے واقعی روشناس ہیں، کہ فی زمانہ تمدنی صنعتی معشیتی ترقی پزیریورپی ممالک، امریکہ، جاپان و چائینا تک، تمام ترقی پذیر ممالک، اپنے اقلیتی اوباش قسم کے تونگر زادوں کے عیش و عشرت کے سامان مہیا کرتے،کچھ مخصوص بازار، قحبہ خانے، شب بھر کھلے رکھے ہوئے ہوتے ہیں، وہیں اپنے ملک کی اکثریتی عوام و انکے رہائشی علاقوں میں، قرآن اولی کے ہم مسلم حکومتوں والا نظام حیات، جدت پسند ناموں کے ساتھ، آج تک رائج ہے

جہاں پر،بعد عشاء شب کے دوسرے پہر کے بعد، تمام تجارتی مراکز بند رکھے جاتے ہیں ،بلکہ کسی بھی شہری کو اظہار آزادی حق رائے دہی کے نام پر، اپنے بند گھروں میں تک، شور و غل و اونچی آواز میں میوزک سننے تک پابندی عائد ہے۔ یہی نہیں رہائشی علاقوں میں بعد وقت عشاء، بے ضرورت اپنی گازی کے،

ہارن بجانے پر بھی جرمانے اوصولے جاتے ہیں۔ایک طرف ہم مشرقی و عرب ممالک کے مسلمانوں نے، مغرب کے اقدار کو اپنانے کے بہانے سے، اپنے اسلامی اقدار سے منھ موڑا ہوا ہے،وہیں پر جدت پسند تہذیب کے دعویدار یہ مغربی دنیا، مختلف جدت پسند ناموں سے ایک حد تک، اسلامی اقدار ہی پر عمل پیرا رہتے، دنیوی ترقیات کے مختلف سنگ میل عبور کرتے چلے جارہے ہیں

ہم ھند و پاک کے مسلمان اپنے آس پاس بسنے والے سناتن دھرمی ھندوؤں کے، اپنے آسمانی ویدک اقدارکوکس قدر مضبوطی سے تھامے،صبح طلوع آفتاب سے قبل اٹھتے ہوئے، نہا دھوکر، اپنے سوریہ نمسکار،پوجا ارچنا سے، اپنے دن کی شروعات کرتے ہوئے، حصول دنیا میں دن بھر منہمک رہتے، کیسے معشیتی طور مضبوط و مستحکم ہوئے جارہے ہیں؟اور ہم مسلمان ہیں، اپنے نبی آخرالزماں محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ کی تعلیمات سے بے بہر، ہزاروں سالہ عالم قبر و برزخ و بعد محشر تاابد عیش و عشرت کی زندگانی کی فکر سے آزاد، دنیوی چند سالہ عیش و عشرت سمیٹنے ہی مست دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں، رب رزاق دوجہاں مالک ارض و سماوات، جس نے اپنے عالم ارض و سماوات کو خود ساختہ طور چلتے

رہنے کے لئے، جو خودکار نظام وضع کیاہوا ہے، اس کے برخلاف تقسیم رزق کے صبح کے وقت سوتے رہنے والے ہم مسلمانوں کو، اپنے وضع نظام قانون کےخلاف، رزق و جاہ حشمت خود سے لاکرتھوڑی نا دیتا پھریگا؟ اسلئے جب سے زوال بغداد و غرناطہ و استنبول بعد، جب سے ہم عالم کے مسلمانوں نے، اپنے رب کے احکامات سے ماورائیت حاصل کی ہوئی ہے،اس نے بھی ہم عالم کے مسلمانوں کو،اپنی 200 کروڑ کثرت تعداد کے باوجود 2 فیصد یہود کے ہاتھوں رسوا و بے بس لا چھوڑا پے۔ آج بھی عالم کے

مسلمان، خصوصا ھندو یاک و پاک بنگلہ دش کے ہم 70 کروڑ مسلمان بھی اپنے اللہ کے قرآن و حدیث والے احکام پر چلنے لگیں اور اپنے درمیان والے غرباء و مساکین کی، شہر مدینہ کے،انصار و مہاجرین والے جیسا حسن سلوک کرنے لگیں، سورج کی روشنی والے دن کو حصول معاش و ترویج دین کے لئے مختص کریں

اور شب کی تاریکیوں دنیا جہان کی مخلوقات کی طرح آرام کرنے یا سونے ہی کے وقف کردین تو یقینا رب جہاں کی طرف سے نازل ہونے والی تمام تر خیر و برکات سے مستفیض ہوتے ہوئے، ہم بھی عالم کی سربراہی کی دوڑ میں آگے آسکتے ہیں۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں